شیخ رشید

” وہ حشر کروں گا کہ یاد رکھو گے“، شیخ‌ رشید کا دعویٰ پورا ہوسکے گا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد :

پاکستان تحریک انصاف نے جس دھرنا اور حملہ کلچر کو اختیار کیا تھا، وہ اس کے اپنے گلے پڑ چکا ہے۔ اسلام آباد کے ریڈ زون میں کبھی اساتذہ جمع ہوتے ہیں، کبھی لیڈی ہیلتھ ورکرز اور کبھی سرکاری ملازمین۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کو 126 روزہ احتجاج اور دھرنا کی اجازت دئیے رکھی، تحریک انصاف اور جناب طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک کے ورکرز نے سپریم کورٹ کی دیواروں پر اپنی گیلی شلواریں لٹکائیں، مسلم لیگ ن کی حکومت برداشت کرتی رہی، پی ٹی وی پر قبضہ کرلیا گیا تو وفاقی حکومت نے سوائے مذمت کے کچھ نہ کیا۔

پاکستان تحریک انصاف حکومت میں آئی تو اس نے معاشرے کے باقی گروہوں حتیٰ کہ اپوزیشن جماعتوں سے بھی کہا کہ وہ احتجاج کرنا چاہیں تو سو مرتبہ کریں، انھیں کنٹینر بھی فراہم کیا جائے گا اور کھانا پینا بھی۔ تاہم اس کے ڈھائی سالہ حکمرانی کی کہانی یہ ہے کہ وہ کسی بھی احتجاج کو برداشت نہیں کررہی، احتجاجی مظاہروں ، دھرنوں کو کچلنے کے لئے وہ تمام تدابیر اختیار کرتی ہے جن کی کسی بھی مہذب معاشرے میں اجازت نہیں ہوتی۔ گزشتہ روز بھی ایسا ہی ہوا۔ اساتذہ اور سرکاری ملازمین پر ایکسپائرڈ آنسو گیس استعمال کی گئی جو خطرناک کیمیائی گیس بن چکی ہوتی ہے۔

آنے والے دنوں میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے لوگ بھی راولپنڈی ، اسلام آباد آئیں گے۔ ظاہر ہے کہ وہ اب الیکشن کمیشن اسلام آباد کے باہر دھرنا دینے نہیں آئیں گے اور نہ ہی خالی ہاتھ واپس جائیں گے۔ اگرچہ نائب وزیراعظم یعنی وزیرداخلہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ ” وہ حشر کروں گا کہ یاد رکھو گے ۔“ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزیرداخلہ اپوزیشن والوں کو روک سکیں گے؟ انھیں کچل سکیں گے؟ ان کا وہ حشر کرسکیں گے کہ وہ یاد رکھ سکیں؟؟؟؟

اگر تحریک انصاف حکومت تمام تر حربے اختیار کرنے کے باوجود سرکاری ملازمین کا احتجاج نہ دبا سکی، اپوزیشن کارکنوں کو کیا دبا سکے گی ! بالخصوص جب پی ٹی آئی حکومت عوامی اعتماد بھی کھو رہی ہو۔ رائے عامہ کا جائزہ لینے والی فرم ” پلس کنسلٹنٹ “ نے دسمبر 2020 میں پاکستانیوں سے پوچھا کہ کیا وہ عمران خان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ چالیس فیصد نے کہا :” نہیں “، 20 فیصد گومگو کا شکار رہے اور 37 فیصد نے اطمینان کا اظہار کیا۔

پوچھا گیا کہ کیا پاکستان درست سمت میں سفر کررہا ہے؟ 49 فیصد نے کہا کہ ” نہیں، غلط سمت میں سفر کررہاہے۔“ 43 فیصد نے ہاں میں جواب دیا۔

پوچھا گیا کہ کیا موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ؟ 96 فیصد نے کہا :” ہاں “، چار فیصد نے کہا کہ ” نہیں۔“

پوچھا گیا کہ کون ہے ذمہ دار معاشی بحران کا؟ 46 فیصد نے موجودہ حکومت کو قرار دیا اور 37 فیصد نے گزشتہ حکومتوں کو۔

یہ سروے جہاں عمران خان حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے وہاں اس میں اپوزیشن کے لئے بھی غور و فکر کا مقام ہے۔ ان حلقوں کی رائے درست ثابت ہورہ
ی ہے ، جو عمران خان کی آمد کو گزشتہ حکومتوں کی پالیسیوں کا ردعمل قرار دیتے تھے۔ ن لیگ کی حکومت پانچ فیصد ڈیلیور کرکے سو فیصد اعتماد مانگتی تھی۔ پی پی حکومت چاہتی تھی کہ قوم اٹھارویں ترمیم ہونے پر مطمئن ہوجائے اور بس!

اپوزیشن صرف قوم کو تبدیلی کے لئے ووٹ دینے کا طعنہ دے کر بری الذمہ نہیں ہوسکتی اور اس خیال میں نہ رہے کہ عمران خان کی پالیسیوں کے ردعمل میں وہ اپوزیشن کے پلڑے میں اپنا سارا وزن ڈال دے گی۔ مذکورہ بالا سروے یہی کچھ ظاہر کرتا ہے ۔

اور پی ٹی آئی حکومت کو بھی کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے بالخصوص جب روزانہ اشیائے ضروریہ مہنگی ہو رہی ہوں ، بجلی میں روزانہ اضافہ ہورہا ہو۔ یہ مبالغہ آرائی ہرگز نہیں، دس فروری کو بھی اضافہ ہوا اور گیارہ فروری کو بھی۔ صرف ایک صورت ہے حکومت بچنے کی، عوام کو ریلیف دیا جائے۔ یہاں‌معاملہ الٹ ہے، مافیا کو ریلیف اور عوام کو نچوڑا جارہا ہے۔ ایسے میں دنیا کی کوئی طاقت حکومت کو نہیں بچا سکتی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں