انصار عباسی :
پی ٹی آئی کے اراکینِ خیبر پختون خوا اسمبلی کی وڈیو لیک ہوئی جس میں چند ایک ممبرانِ اسمبلی کو نوٹوں کی گڈیاں لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اُن پر یہ الزام لگایا گیا کہ اُن اراکین کا تعلق اُس گروپ سے تھا جنہوں نے گزشتہ سینیٹ الیکشن میں کروڑوں روپے لے کر اپنا ووٹ بیچا۔
اگرچہ یہ واقعہ چند سال پرانا ہے لیکن اس وڈیو نے پہلے سے گندی سیاست کو مزید غلیظ کر دیا ہے۔ جن اراکینِ اسمبلی کو کروڑوں روپے لیتے دکھایا گیا، اُن میں سے کچھ نے یہ الزامات سامنے آنے پر پریس کانفرنسوں میں قرآن پاک کو ہاتھ میں اُٹھا کر کہا تھا کہ یہ الزامات جھوٹے ہیں اور اُنہوں نے کوئی پیسہ نہیں لیا۔
یہ ہے رویہ ہمارے ان سیاسی لیڈروں کا جنہیں عوام منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتی ہے تاکہ اس ملک کا مستقبل سنورے لیکن یہ سیاستدان ملک یا عوام کا مستقبل سنوارنے کی بجائے اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے ایسے ایسے گھٹیا کام کرتے ہیں کہ سیاست کے نام سے نفرت ہو جاتی ہے۔ اِن میں اتنی شرم اور حیا بھی نہیں کہ اگر انہوں نے سیاست کو پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا ہی لیا ہے اور حلال و حرام کا فرق بھی بھول گئے ہیں تو قرآن پاک کو بیچ میں کیوں لاتے ہیں؟
جب یہ الزام لگا تھا تو ان اراکینِ اسمبلی کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہئے تھی۔ چلیں کل اگر کچھ نہیں کیا گیا تو آج ہی اس لیک وڈیو کے بعد تمام ذمہ داران کو گرفتار کر لیا جائے۔ یعنی پیسہ لینے والوں، دینے والوں اور جنہوں نے سیاستدانوں کی یہ منڈی سجائی، یہ عمران خان حکومت کی ذمہ داری ہے، چاہے اِس اسکینڈل میں اُن کے کسی اہم وزیر یا کسی رکنِ اسمبلی کا ہی نام کیوں نہ آ رہا ہو۔
پیسہ لینے والوں نے وفاقی وزیر پرویز خٹک اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر الزام لگایا کہ یہ دونوں اِس غلیظ لین دین میں شامل تھے۔ اگر یہ سچ ہے تو انہیں بھی گرفتار کیا جائے لیکن مجھے معلوم ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا کیوں کہ عمران خان کو بھی Electables کی ضرورت ہے اور وہ اُس خوابوں کی دنیا سے باہر آ چکے جہاں رہ کر وہ اصولوں کی بات کرتے تھے،
اب وہ اِس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ اپنے چاہے کرپٹ ہوں، اُنہیں بچایا جاتا ہے جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ یا تو خاموشی اختیار کر لی جائے یا انکوائری کا حکم دے کر اپنے من پسند افراد کی کمیٹی بنا دی جائے کہ وہ معاملے کا کھوج لگائے جبکہ اصل مقصد معاملے کو ٹالنا ہوتا ہے۔
نیب اور اس کے چیئرمین جاوید اقبال کو تو یہ لیک وڈیو دکھائی ہی نہیں دے رہی ہوگی کیوں کہ اگر اس معاملہ میں اُنہوں نے دلچسپی لے لی تو وزراء سمیت حکمران پارٹی کے اہم رہنماؤں تک ہاتھ ڈالنا پڑے گا جس کی ابھی تک اُن میں حوصلہ نہیں۔ جب ان کی توجہ اِس طرف ہو گئی تو پھر نیب کی پھرتیاں دیکھیے گا کہ کیسے دیے گئے ٹارگٹس کے حصول یعنی اُنہیں پکڑنے کے لئے کیسے کیسے جھوٹے سچے کیس بنائیں گے۔
اپوزیشن سے بھی کوئی توقعات نہیں کیوں کہ پی پی پی ہو یا ن لیگ یا مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت، اُن کے تو اپنے اراکینِ اسمبلی موجودہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں لوٹے بن گئے جس کی وجہ سے اکثریت میں ہونے کے باوجود وہ ناکام ہوئے۔ ان سیاسی پارٹیوں کی طرف سے کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے ایسے اراکینِ اسمبلی کے خلاف کارروائی کریں گی جنہوں نے پارٹی ڈسپلن کے خلاف ووٹ دیا، لیکن عملاً کچھ نہ ہوا۔
جماعت اسلامی کے علاوہ شاید ہی کوئی سیاسی جماعت ہو جو سیاست میں پیسے کے کھیل سے پاک ہو۔ اگر جماعت اسلامی اپنے لوگوں کی تربیت اور اُن کی اچھی شہرت کی بنیاد پر اسمبلیوں کے لئے ٹکٹ دیتی ہے تو دوسری سیاسی جماعتیں خصوصاً تحریک انصاف، ن لیگ اور پی پی پی جیسی بڑی سیاسی جماعتیں سیاست کو اس گندگی اور غلاظت سے پاک کرنے کے لئے باکردار لوگوں کو اسمبلیوں میں کیوں نہیں لاتیں؟
ایسا کیوں ہے کہ سیاسی لوٹوں کو ہی یہاں کامیاب ترین سیاست دان سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسے افراد کے لئے سیاسی جماعتوں کو اپنے دروازے بند کر دینے چاہئیں۔ سیاست میں دولت کا لین دین وہ بیماری ہے جو پھیلتی ہی جا رہی ہے اور سینیٹ کے الیکشن میں چلنے والا پیسہ تو اس خرابی کا ایک پہلو ہے۔
سیاست کو اگر اس غلاظت سے پاک کرنا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اچھے اور باکردار لوگوں کو آگے لایا جائے اور Electablesکی سیاست کو دفنا دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو سیاست ایک گالی بن کر رہ جائے گی۔ ( بشکریہ روزنامہ جنگ )