کیا تینوں بڑی جماعتیں اپنے ارکان کو قابو کرنے اور پرائے ارکان کو اپنا بنانے کی کوشش کررہی ہیں؟
عبیداللہ عابد :
سینیٹ انتخابات 2021ء کا سر پر آن پہنچا ہے،گیارہ مارچ 2021ء کو چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے 65 فیصد سینیٹرز کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جس کے بعد بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ارکان میں خاصی کمی واقع ہوجائے گی تاہم دوسرا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی بلکہ وہ اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بھی مشکلات میں گھری رہے گی۔
مجموعی طور پر 104ارکان کے ایوان بالا سے ریٹائرہونے والے34 ارکان کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جبکہ18کا تعلق حکمران جماعت یا اس کے اتحادیوں سے ہے۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار نے حلف نہیں اٹھایا تھا، وہ لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کے دن گزار رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے اس وقت 30سینیٹرز ہیں جن میں سے17سینیٹرز ریٹائرڈ ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے21 سینیٹرز میں سیآٹھ ریٹائرڈ ہوں گے۔ تحریک انصاف کے14میں سے سات، بلوچستان عوامی پارٹی کے نو میں سے تین، ایم کیو ایم کے پانچ میں سے چار، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے چار میں سے دو ریٹائرڈ ہوں گے۔ اسی طرح نیشنل پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائرڈ ہوں گے۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائرڈ ہوں گے۔
جماعت اسلامی کے دو سینیٹرز ہیں جن میں سے ایک ریٹائرڈ ہوگا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ہی سینیٹر تھا، وہ بھی مارچ میں ریٹائرڈ ہوجائے گا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کا بھی ایک ہی سینیٹر تھا جو ریٹائرڈ ہوجائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا ایک سینیٹر ہے لیکن اس کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوگی۔ سینیٹ میں سے سات ارکان آزاد تھے، ان میں سے چار ریٹائرڈ ہوں گے۔
تحریک انصاف پہلی بار 2015ء میں ایوان بالا میں داخل ہوئی تھی، اس کے ریٹائرڈ ہونے والے سینیٹرز میں سے زیادہ تر خیبر پختون خوا سے جیت کر آئے تھے۔ مارچ انتخابات کے بعد قوی امکان ہے کہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں عددی برتری حاصل ہونے کے سبب وہ سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی تاہم اسے مجموعی طور پر اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔
سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ خسارہ مسلم لیگ ن کو اٹھانا پڑے گا۔ جماعتوں کی عددی قوت کے اعتبار سے انتخابی نتائج سامنے آئے تو مسلم لیگ ن اپوزیشن پارٹیوں میں پیپلزپارٹی سے نیچے کھڑی ہوگی۔ چونکہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت ہے، اس لئے وہ سندھ سے اپنے زیادہ سینیٹرز منتخب کروالے گی، یوں وہ اپوزیشن جماعتوں میں سب سے آگے ہوگی اور ممکن ہے کہ اگلا اپوزیشن لیڈر اسی کا ہوگی۔
مارچ کے سینیٹ انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مارچ کے بعد سینیٹ کا ادارہ 100 ارکان پر مشتمل ہوگا کیونکہ قبائلی علاقہ جات کے صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد وہاں کی چار سیٹیوں پر انتخاب نہیں ہوگا۔ ان علاقوں سے منتخب ہونے والے باقی چار سینیٹرز 2024ء میں ریٹائرڈ ہوں گے۔
شو آف ہینڈ کا تنازعہ
یوں محسوس ہوتا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے خفیہ حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے اور اپنے پتے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو کئی ماہ قبل اطلاعات مل چکی تھیں کہ ان کے بعض ارکان پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے لئے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے”انھیں معلوم ہے کہ کون سا سیاسی لیڈر پیسے لگا رہا ہے۔“
واضح رہے کہ وزیراعظم کے مطابق”گزشتہ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے20 ارکان اسمبلی میں سے ہر ایک کو پچاس ملین روپے دیے گئے تھے۔“ اب کی بار وزیراعظم عمران خان نے اپنے ارکان اسمبلی کو قابو میں رکھنے کے لئے ”ترقیاتی فنڈ“ کے نام پر اپنے ہر منتخب رکن اسمبلی کو پچاس، پچاس کروڑ روپے دیے ہیں۔ حالانکہ وہ ماضی میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی روایت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے پچاس کروڑ روپے لے کر رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ دے گا؟ کوئی بھی اس سوال کا جواب یقین کے ساتھ ’ہاں‘ میں نہیں دے سکتا۔ سینیٹ انتخابات میں چونکہ خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے، اس لئے کس نے غداری کی، اس کا پتہ تب چلتا ہے، جب قیامت گزر چکی ہوتی ہے۔ اپنے ارکان کی مشکوک وفاداری کی بو محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم نے گزشتہ برس نومبر ہی میں کہہ دیا تھا کہ وہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہ اختیار کرنے کے لئے آئینی ترمیم لائیں گے۔
ایسی کوئی بھی ترمیم لانے کے لئے حکومت کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جو پی ٹی آئی کے پاس نہیں ہے، نتیجتاً حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ وہ اسے شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے کی اجازت دے۔ حکومتی موقف ہے کہ سینیٹ انتخابات پیسہ کا کھیل بن چکے ہیں، اس لئے شو آف ہینڈ کے ذریعے وہ اس کھیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے ابھی اس معاملے پر اپنی حتمی رائے ظاہر نہیں کی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے شو آف ہینڈ کے طریقے کے لئے صدارتی آرڈی ننس جاری کردیا، تاہم اسے سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط کیا۔ ’الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021‘ میں پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کی سینیٹ الیکشن کے حوالے سے تین شقوں 81، 122 اور 185 میں ترمیم کی گئی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس حق میں ہو گی تو قوانین میں تبدیلی کے ساتھ اوپن ووٹنگ کرائی جائے گی۔آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعتوں کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کر سکے گا۔
اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آئین پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کی طرف سے جو ریمارکس آئے ہیں، انھیں پڑھ کر حکومتی ذمہ داران کو دل ڈوبتے محسوس ہوتے ہیں۔
مثلاً چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے صدارتی آرڈی ننس کے متعلق کہا کہ ”لگتا ہے آرڈی ننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے۔“ جبکہ جسٹس عمرعطا بندیال نے شو آف ہینڈ کے معاملے پر پوچھا: ”آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرا سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟“ خفیہ رائے دہی کے حامیوں کے دل بھی دھڑک رہے ہیں، انھیں بھی یقین نہیں کہ سپریم کورٹ اپنی رائے کا وزن اسکے پلڑے میں ڈالے گی یا نہیں۔
اپوزیشن جماعتیں ’شو آف ہینڈز‘ کی مخالفت کررہی ہیں، کیونکہ ان کے مطابق ’آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوسکتا‘۔ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جانب سے ساتھ چھوڑنے پر حکمرانوں کو سینیٹ الیکشن میں شو آف ہینڈز یاد آگیا۔ حکمرانوں نے سینیٹ الیکشن میں خود ووٹ توڑے بھی اور خریدے بھی، انہیں خود ووٹ توڑنے اور خریدنے کے وقت اوپن بیلٹ کیوں یاد نہیں آیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو شک ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ہی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو قابو میں کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ اگر حکمران جماعت کا شک درست ہے، ایسے میں سینیٹ انتخابات ایک دلچسپ کھیل ثابت ہوں گے، پھر مارچ کے بعد ایوان بالا کا منظرنامہ حکمران جماعت کے لئے کسی بھی اعتبار سے خوش کن نہیں ہوگا۔
اگر ارکان اسمبلی نے پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ کاسٹ کیا تو ممکنہ طور پر چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ تحریک انصاف اور کسی اتحادی جماعت کا ہوگا لیکن حکمران جماعت کو سینیٹ سے قوانین منظور کرانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ وہ کھینچ تان کر اکثریت حاصل کرے گی، ایسے میں سینیٹ میں چھوٹی جماعتوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوجائے گی، آزاد ارکان بھی اپنی حیثیت سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔
تحریک انصاف کو ایک، ایک ووٹ کی ضرورت ہوگی جو اسے کافی بھاری قیمت سے حاصل کرنا ہوگا۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے ایک واحد راستہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو فارورڈبلاک کے نام پر قابو کیا جائے۔ کیا ایسا ممکن ہوگا؟ یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے۔