مائرہ زید :
مسئلہ کشمیر ایک بہت ہی گھمبیر مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لئے ایک مکمل لا ئحہ عمل کی ضرورت ہے۔
جب پاکستان بنا تو مخالف قوتوں نے کوشش کی کہ یہ اسلامی ریاست نہ بنے اور مسلمانوں کی راہ میں روڑَے اٹکانا شروع کر دیے، مسئلہ کشمیر ان میں سے ایک تھا۔
کشمیر کی قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کے کشمیر زمین پر جنت کی طرح ہے۔ ہمالیہ اور پیرپنچال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان موجود کشمیر کی وادی کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ وادی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے آج بھی پوری دنیا میں زمین پر جنت مانی جاتی ہے۔
اِس وقت یہ حسین وادی تین ممالک کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ جموں وکشمیراور لدّاخ کا علاقہ ہندوستان کے قبضے میں ہے۔ پونچھ، مظفرآباد، گلگت اور بلتستان پاکستان کے حصے میں ہے، جبکہ اکسائی چن اور بالائے قراقرم علاقہ چین کے پاس ہے۔ تبت اور سنکیانگ کے درمیان اہم شاہراہ اسی علاقہ سے گزرتی ہے اس لئے یہ علاقہ چین کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
ہندوستان سیاچن گلیشئیر سمیت تمام بلند تر پہاڑوں پر جبکہ نسبتاً کم اونچے پہاڑوں پر پاکستان کا قبضہ ہے۔ ہندوستان مجموعی طور پر101387 مربع کلومیٹر، پاکستان 85846 مربع کیلومیٹر اور چین 37555 مربع کلومیٹر پر قابض ہے۔
تقسیم پاک و ہند:
1947ء میں ملک کی تقسیم کے وقت بیشتر مہاراجاؤں اور نوابوں نے اپنی آبادی کی چاہت کی بنیاد پر ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے کشمیر مکمل خود مختار ریاست تھی جس پر مہاراجا ہری سنگھ کی حکومت تھی جو مہاراجا پرتاب سنگھ کے بھتیجے تھے اور مہاراجا پرتاب سنگھ کے بعد مہاراجا ہری سنگھ ہی کشمیر کے علاقہ کے حکمراں بنے تھے۔
لائن آف کنٹرول کا قیام
ابتدا میں مہاراجا ہری سنگھ نے ریاست کے آزاد رہنے کو اہمیت دی مگر حالات بگڑنے پر انہوں نے ہندوستان سے چند شرائط پراتفاق کرلیا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک طویل جنگ بھی ہوئی جو 1949ء تک جاری رہی۔ 1949ء میں جنگ بندی کے بعد سیز فائر لائن قائم ہوئی جسے بعد میں لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔
جنگ کی تفصیلات اور بنگلادیش
1965ء میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ ہوئی۔ 1999ء میں ایک بار پھر دونوں ملک کی افواج میدان جنگ میں نظر آئیں۔ اس حقیقت کا تمام دنیا کو علم ہے کہ جنگ سے نقصانات زیادہ ہوتے ہیں اور عام طور پر جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں اس لیے اِن جنگوں سے بھی نہ تو مسئلہ کشمیر حل ہوا اور نہ ہی کشمیریوں کو اِن جنگوں سے کوئی فیض حاصل ہوا۔ 1971ء میں بھی دونوں ممالک کے بیچ ایک اور جنگ ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے اور بنگلادیش نام سے دنیا میں ایک نیا ملک وجود میں آیا۔
تقسیم کشمیر
ریاست جموں وکشمیر ہندوستان کے شمال میں ہے اور تین حصوں پر مشتمل ہے۔ وادی کشمیر، جموں اور لدّاخ۔ سری نگر اس کا گرمائی اور جموں سرمائی دارالحکومت ہے۔ وادی کشمیر اپنے فطری حسن کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، جبکہ جموں ہزاروں ہندو زائرین کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ لدّاخ کو ” تبت صغیر“ بھی کہا جاتا ہے۔ وادی کشمیر میں 95 فیصد، جموں میں 28 فیصد اور لدّاخ میں 44 فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ جموں میں ہندو 66 فیصد اور لداخ میں بودھ 50 فیصد کے ساتھ اکثریت میں ہیں۔
ریاست ” کشمیر“ کے آخری حکمراں مہاراجا ہری سنگھ نے چند شرائط پر ہی ہندوستان سے اتفاق کیا تھا، جو ہندوستانی دستور کے مطابق 370 اور 35A وغیرہ دفعات میں مذکور ہیں، یعنی آزادی کے بعد کشمیر چند شرائط کے ساتھ ہی ہندوستان میں شامل کیا گیا تھا۔
5 اگست 2019ء کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے کشمیر سے متعلقہ ہندوستانی قوانین کی ہی دو ضروری دفعات 370 اور 35A کو ختم کرکے اس کا مستقل ریاست کا درجہ بھی ختم کردیا اور اس پورے علاقہ کو دہلی مرکز کے حوالے کر دیا جبکہ اسے دو حصوں جموں کشمیر اور لدّاخ میں تقسیم کردیا۔
موجودہ صورتحال
کئی ماہ سے کشمیر کے لوگ جسے ہم دنیا کی جنت کہتے ہیں ، گھروں میں قید ہیں، بہت سے علاقوں میں کرفیو نافذ ہے، کاروبار ختم ہوگیا ہے، تعلیمی ادارے بند ہیں، بھوک پیاس کی شدت ، خوراک اور دواؤں کی قلت کی وجہ سے زندگی مشکل ہوگئی ہے۔ مواصلاتی نظام مکمل بند ہے، جس کی وجہ سے کشمیر اور کشمیریوں کے احوال سے متعلق کوئی صحیح خبر آسانی سے نہیں مل رہی۔
میں ہندوستان کی موجودہ حکومت سے درخواست کرتی ہوں کہ حالات پہ قابو پانے کے لئے ہر ممکن مخلصانہ کوشش کرے، مواصلاتی ذرائع کو بحال کیا جائے، غذائوں اور دواؤں کی فراہمی کے لئے مکمل ضابطہ بنایا جائے، گرفتار لوگوں کو آزاد کیا جائے، کشمیریوں کو اعتماد میں لے کر بات چیت شروع کی جائے کیونکہ کشمیر کا مسئلہ طاقت کے بل بوتے پر حل نہیں ہو سکتا بلکہ کشمیریوں کی بات سن کر اور سمجھ کر اُن سے مذاکرات کرکے کوئی نکالنا پڑے گا۔
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن