کشمیری خواتین ماتم کررہی ہیں

نوحہ کناں کشمیر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

طوبیٰ ناصر :

آخر کار تمہارے دل سخت ہو گئے، پتھروں کی طرح سخت بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیوں کہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے۔ (سورة البقرة)

آج کے دور کا انسان پتھر سے بھی سخت ہو گیا ہے۔ جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے پوری دنیا کے انسان خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں۔ آج کے دور کے معیارات بدل چکے ہیں، ضمیر مر چکے ہیں۔ آج کا انسان اپنے کتے یا بلی کے مرنے پر سوگ منا لیتا ہے لیکن اسے کشمیر میں ظلم کا نشانہ بنتے انسان دکھائی نہیں دیتے،

آج کا انسان دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کا سوچ رہا ہے لیکن اسے کشمیر میں لٹتی انسانیت دکھائی نہیں دیتی۔ کشمیر، فلسطین، برما اور دنیا بھر میں مظلوم انسانوں کا لہو دریاؤں اور جھیلوں کی رنگت بھی بدل دے تو کسے پرواہ ہے، ہم تو اپنی زندگی کو بہتر کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ کشمیر کا حسن کئی صدیوں سے غلامی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔

سرزمین جو فردوس بر روئے زمیں ہے، سینوں میں غلام نسلوں کو بوجھ اٹھائے پھرتی ہے۔ ‏کشمیر کی تصویر انصاف اور جمہوریت کے جھوٹے دعویداروں کے منہ پہ طمانچہ ہے۔ اقوامِ عالم کی خاموشی اور بھارت کا وحشیانہ تشدد انسانیت کی موت ہے لیکن افسوس کہ حکومت پاکستان سوائے افسوس کے کچھ نہیں کر رہی۔

بلبل کے آنسوؤں پر بے تاب ہو جاتے ہو
چڑیا کے زحمی پر تم کو بے چین کر دیتے ہیں

زلف طرہ دار کے خم و پیچ سے طُرح ملتی ہے تم کو
فسانہ ہجرو وصال مزے لے لے کے سناتے ہو

ابر کے جھوم کے اٹھنے پر جھوم جاتے ہو
بدلی کے برس جانے پر بلانوش ہو جاتے ہو

قصہ بوسنیا و فلسطین کیوں بے رنگ ہے تمھارے لیے؟
لہو کے ابلتے فوارے اور بہتے دریا کیوں نظر نہیں آتے تم کو( صغیر قمر)

ہر سال 5 فروری کو حکومت پاکستان کو یاد آتا ہے کہ ہماری شہ رگ بھی ہے، 5 فروری کی تاریخ کیا ہے اور یہ کیوں منایا جاتا ہے؟

یہ جدوجہد تقسیم برصغیر سے بھی قبل ڈوگرہ سامراج کے خلاف اہلِ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی ہی کا تسلسل ہے۔ 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بنیادی اصولوں اور فارمولے کو نظرانداز کرکے بھارتی قیادت اور برطانوی وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے مہاراجا کشمیر سے سازباز کرکے الحاق کی ایک نام نہاد دستاویز کے تحت کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا تو ریاست میں بغاوت نے سر اٹھایا۔

تحریک جہاد کے نتیجے میں کشمیر کا ایک تہائی حصہ آزاد کرا لیا گیا۔ مجاہدینِ کشمیر کے قدم تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ بھارت نے شکست کو بھانپتے ہوئے اقوام متحدہ کے دروازے تک پہنچ گیا اور جنگ بندی کروا دی گئی۔ سلامتی کونسل کی ان قراردادوں میں کشمیریوں سے یہ وعدہ کیا گیا کہ انہیں رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن بھارت نے ایسی ہر کوشش کو سبوتاژ کیا اور مقبوضہ کشمیر کے مسلم تشخص اور عددی اکثریت کو ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر قتل عام کا سہارا لیا۔

خصوصاً صوبہ جموں میں ساڑھے تین لاکھ مسلمان بے دری سے قتل کیے گئے، لاکھوں گھروں سے نکال دئیے گئے۔ یہی عمل 1965ء میں پونچھ، راجوری اور 1971ء میں کارگل میں دوہرایا گیا۔ جو بچ گئے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے جس کا کشمیریوں نے بھرپور مقابلہ کیا۔ بالخصوص وہاں جماعت اسلامی سمیت دیگر دینی اور حریت پسند تنظیموں نے سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی ہر محاذ پر بھارت کی تہذیبی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے عوام بالخصوص نوجوانوں کے دلوں میں جذبۂ حریت و جہاد کو زندہ رکھا اور بھارت کے قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

اس سارے عرصے میں کبھی محاذِ رائے شماری کے نام سے، کبھی موئے مبارک کے مقدس نام پر، اور کبھی کسی دوسرے حوالے سے سیاسی محاذ پر دستیاب وسائل کے ساتھ تحریک آزادی جاری رہی۔

پاکستان نے بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے 1965ء میں بین الاقوامی اداروں سے مایوس ہوکر گوریلا جنگ کے ذریعے بھی کشمیر کی آزادی کی کوشش کی جو بعد میں تاشقند معاہدے پر ختم ہوئی، جس کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر بین الاقوامی کے بجائے ایک دو طرفہ مسئلہ بنادیا گیا۔

1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد شملہ معاہدے میں رہی کسر بھی پوری کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے دبا دیا گیا۔ شملہ معاہدے کے مطابق تحریک ِآزادیٔ کشمیر کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تمام سرگرمیاں اور پروپیگنڈا بند کردیا گیا تاکہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات خراب نہ ہوں۔

مایوسی کے ان حالات میں بھی کشمیریوں نے خوداعتمادی کے ساتھ اپنی تحریک کو کسی نہ کسی طور پر جاری رکھا۔ مقبوضہ کشمیر کی تمام حریت پسند تنظیمیں اور قائدین 1987ء کے ریاستی انتخابات کے موقع پر مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے منظم ہوگئے۔ اس اتحاد نے وادی کشمیر میں بالخصوص اور باقی مسلم اکثریتی علاقوں میں بالعموم انقلاب کی ایک لہر دوڑا دی۔

MUF کے قائدین کا پروگرام تھا کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد اسمبلی کے پلیٹ فارم سے بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کی نفی کرتے ہوئے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، لیکن بھارت نے خوفزدہ ہوکر اندھا دھند دھاندلی کی اور من مانے نتائج کے حصول کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کیے۔ اس بھیانک دھاندلی کے بعد کشمیری نوجوان اس نتیجے پر پہنچے کہ بھارت سے آزادی کے حصول کے لیے سیاسی محاذ کے ساتھ ساتھ عسکری سطح پر بھی جدوجہد کرنا پڑے گی۔

1989ء میں اسلام آباد میں منعقدہ سارک کانفرنس کے موقع پر پاکستانی اور بھارتی وزراء اعظم کی مشترکہ ملاقات میں مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہ ہوا، بلکہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کشمیر میں رائے شماری کے حوالے سے کیے گئے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں راجیو گاندھی یہاں تک کہہ گئے کہ مقبوضہ کشمیر میں کوئی اضطراب نہیں ہے، وہاں کے لوگ پانچ چھ مرتبہ ریاستی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں، اور یہ کہ وہ وہاں کے نظام سے مطمئن ہیں اور وہاں کوئی آزادی کی تحریک نہیں ہے۔

اس پر اُس وقت کی پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ اس سلسلے میں ہمارا اپنا مؤقف ہے۔ اس سے زیادہ انہوں نے اپنے مؤقف کی وضاحت تک نہ کی اور وزارتِ خارجہ سمیت پاکستان کے تمام ادارے اتنے بڑے انقلاب پر خاموش رہے۔ ان حالات میں 5 جنوری 1990ء کو امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب قاضی حسین احمد نے مقبوضہ کشمیر میں برپا ہونے والے اس عظیم انقلاب اور حکومتی اداروں اور پاکستانی میڈیا کے رویّے کے بارے میں لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے انکشاف کیا اور یہ اعلان کیا کہ اس تحریک کی حمایت کرنا پاکستانی حکومت اور قوم کی آئینی، قانونی، دینی اور سیاسی ذمہ داری ہے۔

حکومتی سطح پر سکوت اور اظہارِ لاتعلقی کے رویّے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے اندر سخت مایوسی اور اضطراب تھا۔ محترم قاضی صاحب اور پروفیسر خورشید احمد صاحب نے سینیٹ کے اندر مقبوضہ کشمیر اور دنیا بھر کے دیگر اخبارات لہراکر ایوان اور حکومت کو متوجہ کیا کہ حکومت مقبوضہ کشمیر میں اس قدر اہم تبدیلیوں کو نظرانداز کرکے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہی ہے۔

جنوری، فروری 1990ء میں بھارتی مظالم سے تنگ آکر ہزاروں کی تعداد میں لوگ آزادکشمیر پہنچنا شروع ہوگئے، جنہیں سنبھالنے کے لیے عوام کے تعاون سے جماعت اسلامی آزادکشمیر اور پاکستانی آگے بڑھے، جنہوں نے بروقت اور تاریخی کردار ادا کیا۔ پانچ جنوری کی پریس کانفرنس ہی میں قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ 5 فروری 1990ء بھرپور طور پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے اور کشمیریوں کو اعتماد دلایا جائے کہ پاکستان کی پوری قوم ان کی پشت پر ہے۔

اُس وقت حکومت وقت نے بھی اس فیصلے کی تائید کی یوں پہلی مرتبہ 1990ء میں 5 فروری پاکستان کی حکومت، اپوزیشن، تمام سیاسی جماعتوں اور ہر عوامی پلیٹ فارم پر یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا۔اس کے بعد گزشتہ اکتیس برس سے پانچ فروری کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا قومی دن بن چکا ہے۔ ہر سال پانچ فروری کو پوری پاکستانی قوم گویا ریفرنڈم کردیتی اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ایک پیغام پہنچتا ہے کہ نہ کشمیری اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔لیکن کیا صرف یومِ یکجہتی کشمیر منا لینے سے پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے؟

بھارت کی شروع سے یہ پالیسی رہی ہے کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی تناظر سے علاقائی اور دوطرفہ سطح پر آجائے اور مقبوضہ کشمیر کے اندر جبر وتشدد اور لالچ و ترغیب سے ایسے حالات پیدا کرلیے جائیں کہ تحریک آزادی کی چنگاری تک نہ رہے۔

ان حالات میں یوم یکجہتی کشمیر منانے کا تقاضا یہ ہے پاکستان بالکل میدان میں آئے اگر حکومت وقت واقعی میں کشمیریوں کی مدد کرنا چاہتی ہے تو صرف لفاظی تقریروں سے کچھ نہیں ہو گا۔ بھارت سے تمام سفارتی تعلقات ختم کرے ایک بارڈر پر مٹھائیاں تقسیم ہوں ایک بارڈر پر خون بہے یہ ہمیں منظور نہیں ہے۔ بھارت کا مکمل بائیکاٹ کر کے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر بھرپور اجاگر کرے، بھارت کے عزائم اور مظالم کے بارے میں دنیا کو بتائے۔ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین کشمیر سے لیا جائے، کشمیر ایشو پر بات کرنے کے لیے ہر پلیٹ فارم پر کشمیریوں کو جگہ دی جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔

پاکستان کشمیر کے ساتھ کھڑا ہے اس پر عملی کام کیا جائے تاکہ کشمیری اپنے مستقبل کے بارے میں پاکستان پر اعتماد کر سکیں۔ حکومت وقت گلگت بلتستان کے حوالے سے بھی اپنا موقف کلئر رکھے، کشمیر کا فیصلہ کشمیری کریں گے اس موقف پر قائم رہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی بھرپور تائید کی جائے۔ بھارت سے مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو سرفہرست رکھا جائے اور مذاکرات کے عمل میں کشمیری قیادت کو بھی شامل کیا جائے۔

بھارت کی ہٹ دھرمی، انسانی حقوق کی سنگین پامالی، وہاں مسلط شدہ کالے قوانین اور بلااشتعال سیز فائر لائن پر پر فائیرنگ کا نوٹس لے۔ اقوام متحدہ، OIC اور دیگر بین الاقوامی سیاسی اور انسانی حقوق کے اداروں میں تیاری کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا جائے۔

آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو ایک سیاسی نظام میں وابستہ کرتے ہوئے اسے تحریک آزادی کا حقیقی بیس کیمپ بنایا جائے اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے والے پروپیگنڈے کر کے کشمیریوں کے جذبات سے نا کھیلے۔ بھارتی فوج نے 2016 سے اب تک 70 ہزار سے زائد کشمیری شہید کیے، مقبوضہ جموں کشمیر میں 1990 تک ہندو پنڈت معاشی طورپر حاوی تھے، بی جے پی نے 5 سال پہلے اقتدار میں آ کر ہندوؤں کو دوبارہ مضبوط کیا، جبکہ مسلمانوں کو دہشتگرد، شرپسند، علیحدگی پسند اور جرائم پیشہ بنا دیا گیا اور اس کے علاوہ اور کہیں ظلم جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

آئے روز وہاں خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے، والدین کے سامنے جوان اولاد کو مار دیا جاتا ہے۔ ہمیں اور کس وقت کا انتظار ہے؟ جب کشمیری ہی نہیں رہیں گے۔ اب بھی وقت ہے پاکستان بین الاقوامی سطح پر کشمیر ایشو کو اٹھا کر بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ کشمیر سے کرفیو کو ختم کرے۔

حکومت وقت سنجیدگی سے اس بات کا نوٹس لے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت لینے میں ان کے مدد کرے۔ کشمیر کی وادی نوحہ کناں ہے اور کوئی اس کا نوحہ سننے کے لیے نہیں ہے اس یوم یکجہتی پر ہر مسلمان خود سے وعدہ کرے کے اپنی ہر سانس تک ظلم کے خلاف کھڑا رہے گا اور اپنے کشمیری بہن بھائیوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گا ان شاءاللہ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں