ظفر سلطان :
صدر کے پروٹوکول سکواڈ کی سپیڈ 100 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کم رکھنے پر متعلقہ ڈرائیور اور سکیورٹی اہلکار کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی، فوری ذہن اس طرف گیا کہ صدر، وزیر اعظم اور وفاقی وزراء کے سکواڈ کی سپیڈ کتنی ہونی چاہئے؟ تحقیق سے معلوم ہوا کہ صدر اور وزیراعظم کے سکواڈ کی کم از کم سپیڈ بھی 110 سے 100 کلو میٹر فی گھنٹہ ہونی چاہئے۔
تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ روزانہ ہوٹر بجاتی گاڑیاں اس قدر تیز رفتاری سے کیوں گزر جاتی ہیں۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ شہری آبادی میں وی آئی پی سکواڈ کی اتنی سپیڈ کیوں مختص کی گئی ہے، اور کیا مختص سپیڈ سے کم کرنے پر واقعی اشرافیہ کی جان کو خطرہ ہوتا ہے؟
اس طرح کے متعدد سوال کئے جا سکتے ہیں لیکن میں ایک پوائنٹ پر توجہ دینا چاہتا ہوں کہ شہری آبادی میں جہاں رش کی وجہ سے گاڑی کے ساتھ گاڑی جڑی ہوتی ہے وہاں پر اگر وی آئی پی سکواڈ کی سپیڈ 110 کے لگ بھگ ہو گی تو یقینی طور پر حادثات رونما ہوں گے،
موجودہ حکومت اور اس سے پہلے بلکہ سالوں سے اشرافیہ کے پروٹوکول کا چلن ہے جس میں بلاشبہ درجنوں لوگوں کو روند ڈالا گیا لیکن آج تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی کیونکہ اشرافیہ کے خلاف کون کارروائی کرے گا؟
کشمالہ طارق کے سکواڈ کی زد میں آ کر چار نوجوان جان کی بازی ہار گئے، اس کی بنیادی وجہ بھی تیز رفتاری تھی، زد میں آنے والی مہران گاڑی کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے ہٹ کرنے والی گاڑی کی سپیڈ کتنی تھی، اس پہلو پر بات نہیں کی جا رہی ہے کہ شہری آبادی میں زیادہ سے زیادہ کتنی سپیڈ ہونی چاہئے،
گاڑی چلانے کا طویل تجربہ رکھنے والے حضرات کا کہنا ہے کہ اگر گاڑی کی سپیڈ 80 سے زیادہ ہو تو فوری طور پر گاڑی کو روکنا آسان نہیں ہوتا، سو پابندی عائد کر دینی چاہئے کہ شہر میں 80 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ سپیڈ نہیں ہونی چاہئے،
شہر سے نکل کر موٹروے پر تیز رفتاری کا شوق پورا کیا جا سکتا ہے اور اگر کسی کو اس سے بھی جلدی ہو تو وہ فضائی راستہ اختیار کر سکتا ہے، اگر اشرافیہ کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ وزیر اعظم، صدر اور وفاقی وزراء کو بلٹ پروف گاڑیاں دی گئی ہیں، اس کے باوجود سکیورٹی کے نام پر تیز رفتاری سمجھ سے بالا تر ہے۔
معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے ہاں اکثر بوڑھے شہری اوور ہیڈ برج پر روڈ کراس کرنے کی بجائے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر زمینی راستے کو اختیار کرکے روڈ کراس کرتے ہیں، میں اسلام آباد ہائی وے اور کشمیر ہائی پر روز اس کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ عمران خان صاحب سے توقع اس لئے بھی زیادہ ہے کہ وہ اپنے لئے پروٹوکول کو پسند نہیں کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر سکیورٹی کے مسائل نہ ہوں تو کسی صورت پروٹوکول نہ لیں، ان کی عوامی طبیعت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاقی وزراء اور اداروں کے سربراہان فخریہ پروٹوکول لے رہے ہیں یہاں تک کہ ان کی فیملیز بھی پروٹوکول پر اتراتے دکھائی دیتی ہیں، اب جبکہ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گئی ہے، حکومتی سطح پر اس کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے پروٹوکول کے خاتمے کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں، جب تک پروٹوکول کا خاتمہ نہیں کیا جاتا ہے، شاہراہوں پر چلنے والے عوام یونہی حشرات الارض کی طرح کچلے جاتے رہیں گے۔