سینیٹ آف پاکستان (1)

سینیٹ انتخابات : وزیراعظم عمران خان کیوں خوفزدہ ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد :

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کو حکومت چھوڑنے سے متعلق ڈیڈ لائن گزرے تین روز ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ نوازشریف ، زرداری اور فضل الرحمن لوٹی ہوئی دولت واپس کردیں ، وہ استعفیٰ دیدیں گے۔ اس پر پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما اشارے دے رہے ہیں کہ چار فروری کے پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں اہم فیصلے ہونے والے ہیں۔ نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن کی کوشش ہے کہ پی ڈی ایم لانگ مارچ شروع کرے لیکن شاید پیپلز پارٹی ایسا نہیں چاہتی۔ اب دیکھنا ہوگا کہ پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں پیپلزپارٹی کو قائل کرتی ہیں یا پیپلزپارٹی باقی جماعتوں کو قائل کرتی ہے۔ کل رات تک واضح ہوجائے گا۔

حکمران جماعت کہتی ہے کہ مستقبل اپوزیشن جماعتوں کا اچھا نہیں‌ ہے جبکہ اپوزیشن کہتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بہت جلد ختم ہونے والی ہے ۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن دونوں کیلئے ہی سب اچھا نہیں ہے،

ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے پاس ایسی ٹھوس دستاویزات موجود ہیں اگر وہ منظرعام پرلے آئیں تو پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں ہنگامہ برپا ہوجائے گا لیکن مجبوریوں کی وجہ سے وہ انہیں سامنے نہیں لاسکتے۔ جناب حامد میر نے جن دستاویزات کی طرف اشارہ کیا ہے ، شاید ان کا تعلق فارن فنڈنگ سے ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بیرون ملک کہیں نہ کہیں سے فنڈنگ ملتی ہے۔ اس لئے کوئی بھی اپنے آپ کو اس معاملے میں پاک صاف نہیں کہہ سکتا۔

اگر کوئی پارٹی کہتی ہے کہ وہ فارن فنڈنگ نہیں لیتی تو وہ مکمل جھوٹ کہتی ہے۔ عمران خان کیسے اس معاملے سے بری الذمہ ہوسکتے ہیں؟ وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں تو فارن فنڈنگ لیتی ہیں لیکن تحریک انصاف نہیں لیتی۔

اصول کی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی جماعت کو فارن فنڈنگ نہیں لینی چاہئے کیونکہ جو فنڈز دیتے ہیں ، وہ اپنے مقاصد بھی پورے کرواتے ہیں۔

اپوزیشن رہنمائوں کا انداز گفتگو ظاہر کررہا ہے کہ بظاہر وہ مقتدرقوتوں کو مقتدر نہیں مانتے لیکن بباطن وہ انھیں اس مقام پر ہی فائز مان کر ان سے مذاکرات کرتے ہیں، ہر اپوزیشن جماعت کیک میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسلسل بات چیت میں مصروف ہے، حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن بھی۔ اب ان کے بیانات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے معاملات کافی حد تک طے ہوچکے ہیں۔ اسی لئے اگلے روز انھوں نے بیان دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے نہیں ، حکومت کے خلاف ہیں۔

رہی بات حکمران جماعت تحریک انصاف کی، اس کا حال یہ ہے کہ عمران خان کو اپنے ہی ارکان اسمبلی پر اعتماد نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ اوپن بیلٹ سینیٹ انتخابات کی بات کررہے ہیں۔ اگرچہ یہ تجویز درست ہے، اس کے نیتجے میں روپے پیسے کے کھیل میں‌ رکاوٹ پیدا ہوگی تاہم اس کا دوسرا پہلو بہرحال یہی ہے کہ عمران خان کو اپنے ارکان اسمبلی سے بے وفائی کا خوف لاحق ہے۔ اگر عمران خان انتخابات کو روپے پیسے سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو انھیں متناسب نمائندگی جیسے نظام انتخاب کو رائج کرنے کی بات کرنی چاہئے تھی تاکہ پورے کا پورا انتخابی نظام تبدیل ہوجائے۔

یہ بھی پڑھیے
متناسب نمائندگی، ایسا انتخابی نظام جو پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں