ڈاکٹر شائستہ جبیں
[email protected] :
مریم نے پنجاب کے ایک دیہاتی گھرانے میں آنکھ کھولی ، مشترکہ خاندانی نظام پر مشتمل اس کا گھرانہ قریبی رشتوں میں پروئے چھ خاندانوں کا مجموعہ تھا، اور سب لوگ اکٹھے ایک ہی حویلی میں قیام پذیر تھے. مریم عام دیہاتی بچیوں کے بر عکس بچپن ہی سے نفیس ، کم گو اور شرمیلے مزاج کی تھی، پڑھائی میں تیز اور لکھنے پڑھنے کی شوقین تھی۔
شکل و صورت اللہ کی دی ہوئی لاکھوں میں ایک تھی، یوں صورت اور سیرت و ذہانت کی وجہ سے وہ باقی رشتہ دار لڑکیوں میں نمایاں تھی۔ بچپن ہی سے ان کے ساتھ رہنے والے ماموں نے اپنے بیٹے کے ساتھ اس کا رشتہ طے کر رکھا تھا اور مریم اس نسبت کے تذکرے سنتی جوان ہوئی تھی۔
ماموں زاد بھی نہ صرف پڑھنے میں اچھا تھا بلکہ اخلاق و کردار کے حوالے سے بھی نیک نام تھا۔ اہل خانہ کی طرف سے ہمہ وقت دونوں کی نسبت کے تذکرے اور لڑکے کی شخصی خوبیوں کی بناء پر مریم کے دل میں اس رشتے کے لیے بہت اُنسیت پیدا ہوتی چلی گئی۔
وقت گزرتا رہا، لڑکے کو تعلیم مکمل ہونے کے بعد ایک بڑے شہر میں ملازمت مل گئی اور وہ وہاں چلا گیا، اس کے جانے سے پہلے والدین نے زبانی طے شدہ رشتے کو منگنی کی باقاعدہ رسم کر کے مزید مضبوط کر دیا، لیکن قسمت میں دونوں کا ساتھ نہیں تھا، لڑکے کو شہر میں رہائش پذیر ایک طرح دار رشتہ دار لڑکی پسند آ گئی اور اس نے مریم کے ساتھ شادی سے انکار کر دیا۔
دیہاتی رسم و رواج کے پروردہ گاؤں میں یہ خبر کسی دھماکے سے کم نہ تھی، کیوں کہ لڑکے کی بہن کا مریم کے بھائی کے ساتھ نکاح ہو چکا تھا، پنجاب میں وٹہ سٹہ (ادلے بدلے) کی شادی کا رواج عام ہے اور یہ رشتہ بھی ایسا ہی تھا۔ لڑکے کو سمجھانے بجھانے کی تمام کوششیں ناکام ٹھہریں، وہ اپنی بات پر ڈٹا رہا۔ مریم کے بھائی نے اُس کی بہن کو طلاق دے دی۔ یوں بچپن کی نسبتیں، تمام رشتوں میں عداوت، رنجش اور نہ ختم ہونے والی ناراضگی پر منتج ہوئیں.
آج بھی شہر ہو یا دیہات ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت سے گھرانوں میں شادی کے لیے لڑکی کی پسند نا پسند یا رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا کہ ایک فرد نے فیصلہ کیا اور تین زندگیاں اس فیصلے کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ مریم اس تمام واقعہ میں بظاہر تو نارمل رہی لیکن اس کے اساتذہ کو اس سے پڑھائی میں دلچسپی نہ لینے کی شکایت ہونے لگی،
ابتداء میں تو اس کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ نے (جو کہ مقامی تھیں اور تمام صورتحال سے آگاہ تھیں) اس کی غیر دلچسپی اور غائب دماغی کو نظر انداز کیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ بہتر ہو جائے گی، لیکن مہینوں گزر جانے کے بعد بھی اس کی ذہنی کیفیت میں کوئی بہتری نہ آئی. بولتی تو پہلے بھی کم تھی، لیکن اب تو بالکل گپ چپ ہو کر رہ گئی تھی۔
سارا سارا دن ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے گزار دیتی، گاؤں کا سکول تھا اور ہر ایک کو اس پر گزرنے والے سانحہ کا علم تھا لیکن اس طرح کا ردعمل پہلی بار دیکھا جا رہا تھا، اس لیے ساتھی طالبات اور بعض اساتذہ تک اسے دیکھ کر سرگوشیاں کرتیں کہ اس نے رشتہ ختم ہونے کو دل سے لگا لیا ہے،نتیجتاً اس کا دل سکول سے ایسے اچاٹ ہوا کہ وہ گھر بیٹھ گئی۔
اس کے گھر والوں کو اس کی ذہنی حالت سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ ان کے نزدیک رشتہ ختم ہونا اتنی بڑی بات نہ تھی کہ اس پر زندگی اور اس کی دلچسپیوں سے ہی منہ موڑ لیا جائے۔ انہوں نے بجائے اسے زندگی کی طرف واپس لانے کی کوئی کوشش کرنے کے، اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ مناسب توجہ اور بروقت علاج یا تھیراپی نہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس کے ذہن نے بالکل کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ پاگل ہوتی چلی گئی۔
وہ باحیا، نیک سیرت اور ذہین بچی لباس و ظاہری حلیے سے بے نیاز گھر سے بھاگ بھاگ کر کبھی کہیں اور کبھی کہیں چلی جاتی، اول فول بکتی رہتی. گاؤں کے لوگوں کے ہاتھ ایک تماشا آ گیا کیونکہ یہ پہلا واقعہ تھا کہ کسی لڑکی کی محض ایک نسبت کے خاتمے پر یہ حالت ہوئی ہو، ورنہ تو بے چاری عورتیں ہر طرح کے غم اور دٗکھ کو اندر اتار لینے اور خود کو گھل گھل کو مارنے کی حد تک احتجاج کرتی تھیں.
یہ پہلا کھلا ڈلا طرزِ عمل یا احتجاج معاشرے کو ہضم نہیں ہو رہا تھا. لوگوں کی طنزیہ باتوں، تمسخر اور طعنوں نے مریم کے اہل خانہ کو اس سے مزید متنفر کیا، کیونکہ ان کی سوچ اس مقام تک پہنچنے سے قاصر تھی کہ ان کی بیٹی عام بچوں کی نسبت حساس واقع ہوئی تھی اور بچپن کے طے شدہ رشتے سے اس کی انسیت کی وجہ سے اس کا یکایک اس رشتے کے خاتمے کو قبول نہیں کر پا رہا تھا اور یوں وہ بے بس ہو کر پاگل ہو رہی تھی۔
گھر والوں نے کچھ واجبی سا علاج کرایا (علاج کرانے کے لیے لگن اور مستقل مزاجی اور صبر کی ضرورت تھی، جو ان کے پاس نہیں تھا )، جس سے کچھ فائدہ نہ ہوا اور بچی کی ذہنی حالت دن بدن مزید بگڑتی گئی، وہ رات دن کا فرق بھول گئی اور بھاگ بھاگ کر ماموں کے گھر جاتی (رشتوں کے خاتمے نے گھروں کی بیچ بھی دیواریں کھڑی کر دی تھیں)، اس طرز عمل سے خوفزدہ ہو کر گھر والوں نے اسے کمرے میں بند کرنا شروع کر دیا، پھر بھی اس کے بھاگنے کی کوشش جاری رہتی تو اسے مارا پیٹا جاتا، باندھ دیا جاتا، اس رویے نے اسے مکمل طور پر پاگل کر دیا۔
وہ بچی جس کی کبھی کسی نے اونچی آواز نہیں سنی تھی، اب وہ بہ آواز بلند گالیاں، کوسنے دیتی اور چیخیں مارتی پائی جاتی. اس کے کزن نے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرلی تھی اور وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے، مریم کے بھائی کی بھی شادی ہو گئی، سب بہن بھائی اپنے اپنے گھروں میں خوش باش ہیں.
ایک مریم ہے جو زندہ لاش بنی زندگی کا بوجھ کندھوں پر اٹھا کر دن پورے کر رہی ہے. ماں باپ اس کے غم کو سینے سے لگائے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں. مریم کی کہانی صرف ایک کہانی نہیں، سچا واقعہ ہے جس کے بیان کرنے کا مقصد پیدائش کے ساتھ طے کردہ رشتوں بلکہ پھندوں کے نتائج سے آگاہ کرنا ہے، کاش ہمارا معاشرہ بیٹیوں کو بھی جیتا جاگتا انسان سمجھے،
کوئی تو سمجھے کہ بیٹیوں کے دل کس قدر نازک ہوتے ہیں اور کس معمولی ٹھیس سے چکنا چور ہو جاتے ہیں، ایسے کہ پھر کرچیاں تمام عمر روح کو گھائل کرتی ہیں، کیا بیٹی اتنا بڑا بوجھ ہے کہ پیدا ہوتے ہی اس کے گلے میں رشتے کا پھندا ڈال کر اس کی سانس تنگ کرنا ضروری ہے. اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ بیٹیوں کو ویسے ہی زندہ درگور کر دیں، جیسا زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا. تمام عمر تھوڑا تھوڑا کر کے زہر دینے کی بجائے، ایک بار کا زندہ درگور کرنا ان کی تکلیف کو کم نہیں کر دے گا؟
کیا آپ اپنی بیٹیوں کو اتنی سی بھی سہولت نہیں دیں گے؟؟
2 پر “بای ذنب قتلت… وہ کس جرم میں ماری گئی؟” جوابات
True reflection of that kind of society in which people can’t understand this type of reality..
Buhhhttt sad story hai,Kash hmarii society is cheez ko samjhy..Allah Pak hidayat dai logon ko..ameenn