حافظ سلمان بٹ رہنما جماعت اسلامی پاکستان

معاشرے کی دھتکاری ہوئی بیٹیاں ، فٹ بال اور حافظ سلمان بٹ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فاروق عادل :

بد اچھا بد نام برا، حافظ سلمان بٹ کا معاملہ ایک زمانے میں ایسا ہی تھا، لاہور میں جو قتل بھی ہوتا، پرچہ ان ہی کے خلاف کٹتا۔ اس صورت حال سے تنگ آ کر ایک روز لیاقت بلوچ نے انھیں گاڑی میں بٹھایا اور جا کر تھانے دے آئے کہ جتنی تفتیش ان سے کرنی ہے، کر لو۔

تفتیش کیا ہوتی، سارے پرچے سیاسی تھے، ایک ایک کر کے ان سے بری ہوتے چلے گئے، جیل سے باہر آئے تو ایسے ہی تھے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے آتا ہے۔

اب یاد نہیں یہ بات برادرم راشد چغتائی نے کہی تھی یا وجاہت اشرف باجوہ نے کہ آج چاہو تو تم ایک شان دار شخص سے ملاقات کر سکتے ہو۔ لڑکپن کے شوق میں ایک شاندار شخص سے ملنے پہنچا تو دیکھا کہ مرکزی نشست پر ایک اونچا لمبا شخص بیٹھا ہے جس کے سرخ و سفید چہرے پر مختصر سی کالی سیاہ داڑھی بہار دکھا رہی تھی۔
یہ حافظ سلمان بٹ تھے اور میری ان سے یہ پہلی ملاقات تھی۔

ہلکی پھلکی گپ شپ کے دوران انھوں نے ایک سوال کا میزائل داغا، سوال یہ تھا کہ آپ لوگ عملی زندگی میں کیا بننا چاہتے ہیں ؟ اہل محفل نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس سوال کا جواب دیا،ایک صاحب نے کہا کہ انسان بننا چاہتا ہوں،
جوابی سوال ہوا کہ کیسا ؟
کہا کہ مکمل۔
یہ جواب سن کر حافظ صاحب کے چہرے پر کوئی تاثر آیا، پھر جلدی سے کہا کہ یار ! وہ تو مولانا مودودی بھی نہیں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔
اس کے بعد ان کا تذکرہ تب سننے کو ملا جب 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں جماعت اسلامی نے انھیں ایک مشکل سے حلقے سے قومی اسمبلی کا امید وار بنا دیا۔

یہ حلقہ مشکل یوں تھا کہ ان کے ووٹروں میں ان حوا زادیوں کا علاقہ بھی آتا تھا جو بازار حسن یا شاہی محلے کے نام سے معروف ہے۔ ان کے مد مقابل میاں صلاح الدین تھے، لاہور کے رؤسا میں سے ایک، علامہ اقبال کے نواسے اور فنون لطیفہ کے دل دادہ۔

ایک ایسے حلقے سے میاں صلی کا الیکشن جیت جاتے تو حیرت نہ ہوتی لیکن ان کے مقابلے پر حافظ سلمان تھے جو کسی دوسرے کو چیلنج دیں یا نہ دیں، چیلنج قبول کرنا ان کی سرشت میں تھا، انھوں نے یہ چیلنج قبول کیا اور ایک بڑے فرق کے ساتھ انتخاب جیت لیا۔

لوگ سوچتے کہ جماعت اسلامی کا یہ بدنام نوجوان اُس بازار سے ووٹ کیسے لے گا؟ لیکن اس شخص نے وہاں سے نہ صرف ووٹ لیے بلکہ ایک کام یہ بھی کیا کہ معاشرے کے اُس دھتکارے ہوئے طبقے کو یہ باور بھی کرا دیا کہ ہم مذہبی لوگ آپ سے نفرت نہیں رکھتے۔

انتخاب کے دن اس مذہبی ثم جماعتی کے لیے دھتکاری ہوئی بیٹیاں یہ کہہ کر پولنگ اسٹیشنوں میں داخل ہوئیں کہ ہم اپنے بھائی کو ووٹ دینے آئی ہیں۔ ایک مشکل حلقے سے حافظ سلمان بٹ کی کامیابی ان کی صلاحیتوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔

طلبہ سیاست میں ‌ایک دوسرے کے مخالف، حافظ سلمان بٹ اور خواجہ سعد رفیق

حافظ صاحب کی زندگی اور طرز زندگی کو دو نکات میں سمویا جا سکتا ہے، ساتھیوں اور ٹیم کو ساتھ لے کر چلنا اور چیلنج قبول کرنا۔ زندگی کے جس مرحلے میں بھی انھیں کوئی چیلنج درپیش ہوا، انھوں نے نعرہ لگایا:

خون ہو یا رنگ ہو
ساتھیوں کے سنگ ہو،

یہ للکار سنتے ہی ان کے ساتھی جمع ہوتے چلے جاتے اور یہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے میدان مار لاتے۔

لوگ کہا کرتے کہ حافظ صاحب بڑی خوبیوں کے آدمی ہیں لیکن فٹ بال انھیں لے بیٹھا، ممکن ہے کہ ان کے بارے میں یہ تاثر درست ہو لیکن ایک تاثر یہ بھی ہے کہ فٹ بال کے دامن میں انھوں نے یوں ہی پناہ نہیں لے رکھی تھی۔ فٹ بال ان کے لیے کسی صوفی کے غار کی طرح تھا جس میں چھپ کر وہ علائق دنیوی سے بچنے کا جتن کرتاہے۔

حافظ سلمان فٹ بال میں پناہ نہ لیتے تو سیاست کے میدان میں ہوتے لیکن سیاست کی دنیا میں جو کھینچا تانی، لینا پکڑنا اور ہٹو بچو ہوتی ہے، ان کا جی اس میں نہیں لگتا تھا۔ جاہ و منصب نے زندگی بھر ان کا پیچھا ضرور کیا لیکن ہر بار وہ کنی کاٹ کر نکل جاتے اور ریٹی گن روڈ پر اپنے آبائی گھر میں پناہ لیتے۔

ویسے فٹ بال کا معاملہ بھی خوب ہے، اس کھیل کے وہ دیوانے تھے۔ یہ خیال ان کے ذہن میں ہمیشہ رہا کہ کسی طرح وہ غریبوں کے اس کھیل کو زندہ کر دیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے فیصل صالح حیات سے ٹکر بھی لی لیکن بدقسمتی سے سیاسی میدان کی طرح کھیل کے میدان میں انھیں بھرپور ٹیم میسر نہ آسکی، ورنہ قبضہ مافیا کے شکنجے سے اس کھیل کو چھڑا اپنے پاؤں پر کھڑا کر دینا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔

اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، سیاست میں بے غرضی اور ایثار کی جیسی مثالیں حافظ صاحب نے قائم کی ہیں، تادیر ان کا ثانی نہ مل سکے گا۔( بشکریہ آوازہ ڈاٹ کام )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں