ابن فاضل :
آپ کسی معیاری بس سروس کے ذریعہ کسی دوسرے شہر جارہے ہیں. گھنٹہ بھر ہوا ہے بس چلتے ہوئے. سب اپنے اپنے کام میں مگن بیٹھے ہیں. ایک صاحب نیند سے بیدار ہوتے ہیں. اطلاعی گھنٹی بجاتے ہیں. گراؤنڈ ہوسٹس آتی ہے. اسے پانی لانے کے لئے کہا جاتا ہے. گو کہ صرف ایک ہی مسافر نے پانی مانگا ہے مگر گراؤنڈ ہوسٹس بہت سے گلاس اور پانی کی بھری بوتل لیکر آتی ہے کیونکہ اس نے انسانی نفسیات کا یہ پہلو جان لیا ہے کہ بہت سے مسافروں کی دبی ہوئی پیاس پانی کا گلاس دیکھتے ہی جاگ جائے گی. اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس ایک مسافر کے سوا کبھی اور کسی نے پانی نہ مانگا ہو.
اپیٹائزر کی سائنس کیا ہے. ہم کام کرتے رہے, ذہن مصروف رہا، اب کھانا کھانے کا وقت ہے، بھوک بھی ہے مگر کیا ہے کہ اشتہائے والہانہ نہیں. تھوڑا سا کھانا کھا کر وقفہ دیا. گویا آس لگا دی. اب دس پندرہ منٹ میں ایسی بھوک چمکی کہ انتظار نہیں ہورہا. وگرنہ پہلے سکون سے بیٹھے تھے. گھنٹہ بھر بیٹھے رہتے تو فکر نہ ہوتی.
جبلت کی یہ روش صرف پیٹ کی بھوک تک ہی محدود نہیں. ہر شعبے میں ایسا ہی ہے. ہوس زر سے لیکر جسم کی بھوک تک.
ہم نے بحیثیت قوم پچھلے چالیس سال میں کیا کیا ہے. ہماری نسل کو تواتر کے ساتھ یہ ڈرامے دکھائے جاتے رہے کہ جو لڑکا اور لڑکی محبت کرتے ہیں اور ملاپ چاہتے ہیں وہ تو ہیرو اور ہیروئین ہیں اورجدید سوچ کے حامل ہیں جبکہ جو جہاندیدہ یا مذہب پسند والدین انہیں اس اختلاط سے منع کررہے ہیں. وہ ولن ہیں، دقیانوسی ہیں.
ہماری پوری نسل روزانہ رات یہی سبق لیتی ہوئی جوان ہوئی یہاں تک کہ ہم اگلی نسل کے والدین ہوگئے. ہم نے باپردہ سے بے پردہ اور باریش سے کلین شیو تک کی جدت پسندی کا یہ سفر بصد شوق والتفات ٹی وی ڈراموں اورالیکٹرانک میڈیا کے زیر ہدایت طے کیا.
اگلی نسل کواس سے بھی آگے کے بے حیائی کے اسباق اسی تواتر سے مل رہے ہیں. خواتین میں اگر حجاب کا تو سوال ہی نہیں،تو دوسری طرف نگاہوں میں حیا کی جگہ بے باکی ہے. لباس سے محض جلد کا رنگ چھپانے کا کام لیا جاتا ہے، خدوخال اب اس کی عملداری میں نہیں.
مستزاد یہ کہ جامعات کی مالی منفعت اس میں ہے کہ وہاں تعلیم مخلوط ہو بلکہ خوب آزادانہ ماحول کی خوب ترویج وتشہیر پر بھی باقاعدہ توجہ دی جاتی ہے. رہی سہی کسر اس چھوٹی سکرین نے پوری کردی ہے. جہاں ہر طرح کی خرافات محض ایک لمسِ انگشت کے فاصلے پر ہیں.
یہ سب ظلم اپنے ساتھ ہم نے خود دیدہ ودانستہ کیے ہیں. اب ایسے میں اگر اوائل جوانی میں ہمارے بچے بہک رہے ہیں تو قصور ان کا نہیں. ہم سب قصور وار ہیں. نہ ہم نے درست تربیت کی، نہ ہم اختلاط میں حائل ہوئے اور نہ ہی ہم اپنے والدین کی طرح زبردست مثال بنے بلکہ الٹا ہم نے ہر طرح سے ان کو گناہ کے لیے ساز گارترین ماحول فراہم کیا ہے.
اشتہاء کو انتہاء تک لے جانے والے سب لوازمات بہم کرکے انسانی فطرت کے خلاف خیر کی توقع لگائے رکھنا بجائے خود حماقت کے سوا کچھ نہیں. واقعات روزانہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ عین انسانی فطرت ہے. اور خالق سے بہتر اپنی مخلوق کو کون جانتا ہوگا، جبھی تو خدائے بزرگ وبرتر نے فرمایا..
” یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں پس تم ان کے قریب بھی مت جاؤ۔“
کیونکہ اللہ کریم جانتا ہے کہ بنی آدم کیلئے گناہ کی دلدل میں اترے بغیر اس کی حد پر تادیر چہل قدمی ممکن ہی نہیں. تبھی اس نے کہا اس کے قریب بھی مت جانا… تمہارے اندر اتنی مزاحمت نہیں کہ اس دلدل میں اترنے سے خود کو روک سکو.
اب کیا کریں؟
ایک راستہ تو یہ ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو مخلوط تعلیم اور بے جا اختلاط مردوزن سے جان چھڑالی جائے. بالیقین اس کا کوئی فائدہ نہیں. صرف نقصان ہی نقصان ہے. مگر یہ کون کرے گا؟ جب تک احساس کم تری کی ماری، درست فیصلہ کرنے کی اہلیت سے عاری اس سوسائٹی سے یہ نہیں ہوپایا.. تب تک….
دوسرا راستہ یہ ہے کہ بچوں سے دوستی کرلیں. انہیں باور کروادیں کہ بیٹا.. آپ کی ہر خواہش اور پسند کا احترام کیا جائے گا، ان کا خوف ختم کردیں تاکہ انہیں اپنا کوئی بھی تعلق آپ سے پوشیدہ نہ رکھنا پڑے. نکاح کو آسان کردیں.
میری رائے میں اگر بچہ دوران تعلیم بھی خواہش کرتا ہے تو یہ دیکھے بنا کہ اس ذریعہ معاش ابھی کچھ نہیں، اس کا نکاح کردیا جائے. تاکہ حواس پر سوار حرام کا ناآسودہ بھوت، حلال کی طمانیت میں بدل جائے.
اللہ کریم ہمیں اپنے خزانوں سے حکمت اور اطاعت عطا فرمادے.