باحجاب مسلمان خاتون کی کار ڈرائیونگ

” کار گُزاری “

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آصفہ عنبرین قاضی :

میری سیکھنے کی صلاحیت ڈرائیونگ کے معاملے میں بالکل الٹ نکلی تھی۔ چار دن کی تربیت کے بعد میں اس زعم میں مبتلا تھی کہ اب کار سڑک پر فراٹے بھرے گی لیکن اس نے جو بھرے وہ خراٹے تھے ۔ اپنی گاڑی لی تو صاحب نے خود ہر اتوار کو ڈرائیونگ سکھائی۔

اسی دوران ان کا تبادلہ دوسرے شہر ہوگیا۔ نصیحت کی گئی کہ ابھی آپ کو چھٹیاں ہیں لہذا سٹنٹ دکھانے کی ضرورت نہیں، لیکن سڑک پر نکلنے سے قبل آخری وصیت لکھ کے تپائی پر رکھتی جانا جس میں چالیسویں کے بعد دوسری شادی کی اجازت سر فہرست ہو۔

وہ قدرے ایک گرم دوپہر تھی ، گاڑی کی چابی پر نظر پڑی تو طبیعت مچل گئی۔ نقشہ ترتیب دیا کہ فلاں فلاں سڑک کو ٹائروں سے روندتے ہوئے اپنی کمال مہارت کے جوہر دکھلا کر آدھ گھنٹے میں واپس آ جائیں گے۔ تجربہ بیس فیصد تھا اور اعتماد سو فیصد ۔۔۔۔ ” نگہ بلند ، سخن دلنواز “ والا شعر گنگناتے ہوئے عازم سفر ہوئے ۔( انگریزی والا سفر)

گاڑی ابھی چند فرلانگ ہی رینگی تھی کہ سامنے گائے کھڑی تھی۔ صاف لگ رہا تھا اسے کسی نے میرے لیے چھوڑا تھا ، گاڑی کچے پہ اتار کے بند کر لی۔ گائے کا رخ اب سیدھا میری طرف تھا ۔ میرے ذہن میں ” بُل فائیٹنگ “ کا سین چلنے لگا۔ اسمعیل میرٹھی کی نظم ” رب کا شکر ادا کر بھائی ، جس نے ہماری گائے بنائی۔۔۔۔۔ “ زہر لگی ۔

میں نے لاک دوبارہ ٹٹولے ۔ کہیں سنا تو نہیں تھا کہ گائے نے سینگوں پر گاڑی اٹھا کے پٹخی ہو ، لیکن پھر بھی بند گاڑی کا اسٹیرنگ پتا نہیں کیوں کانپ رہا تھا۔۔ اللہ میاں کی گائے خراماں خراماں پاس سے گزر گئی تو گاڑی میں جان آئی ۔ پھر سے اعتماد بحال ہوا ، اور دس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی سڑک پر دوڑا دی۔

بڑی سڑک آ چکی تھی اور آگے سپیڈ بریکر بھی تھا، جلدی سے سبق دہرایا۔۔۔۔ اور بریک پر پوری قوت سے پاوں رکھا، لیکن وہ بریک نہیں ایکسیلیٹر تھا۔ نازک اندام گاڑی زور سے اچھلی ، تڑپی اور جھٹکے سے سپیڈ کے پار پہنچ گئی۔ اسپیڈ بریکر کے نزدیک آلتی پالتی مار کے بیٹھی فقیرنیاں بھاگ کھڑی ہوئیں، کشکول کے سکے جابجا بکھرے پڑے تھے۔

گاڑی شدید اعصابی تنائو کا شکار ہو کر کومے میں چلی گئی۔ میں نے باہر نکل کر ایسے معائنہ کیا جیسے نقص پتہ چل گیا تو ٹھیک کر لوں گی۔ خیر دوبار چابی گھمائی۔ سٹارٹ تو ہو گئی لیکن جم کے کھڑی رہی۔ اندر جتنے بھی بٹن نظر آئے سب پر زور آزمائی کی ۔

” آپ کی ہیڈ لائیٹیں آن ہیں “ کسی نے شیشے کے پاس آکر کہا
” تو؟ ۔۔۔۔۔ آپ کو کیا ہے ؟ “ میں نے تیوری چڑھائی ۔
تیز دھوپ میں ان کو ہیڈ لائٹس کیے نظر آ گئیں۔ لائٹیں بند کیں تو وائپر چلنا شروع ہو گئے۔ گاڑی تیز دھوپ میں بارش میں بھیگنے کا سین فلما رہی تھی۔ میں نے بند کرنے کے لیے ہر طرف ہاتھ چلائے۔ اور کامیاب رہی ۔ راہ گیر یوں کھڑے ہو گئے جیسے گاڑی گھرررر گھررر۔۔۔ کر کے آئٹم نمبر پیش کر رہی ہو ، ایک صاحب جو پیچھے کب سے ہارن دے رہے تھے اتر کر سامنے آئے۔۔۔ اور شیشہ بجایا۔۔۔ میں نے شان بےنیازی سے نیچے کیا۔

” آپ کو ہارن کی آواز نہیں آرہی ؟ کب سے ٹریفک رکی ہوئی ہے!“ وہ اونچی آواز میں گویا ہوئے ، میں نے چہرے سے ایسا تاثر دیا جیسے قوت سماعت اور گویائی سے محروم ہوں۔
” کوئی مسئلہ ہے؟ “ وہ شور میں پھر منہ شیشے کے پاس لا کر بولے۔
” آپ کو ہوگا مسئلہ ۔۔۔ مجھے تو نہیں “ میں نے کندھے اچکا کر کہا۔

” پھر گاڑی کیوں نہیں چلا رہی آپ ، چوک میں روک رکھی ہے۔“
” چلا تو رہی ہوں ، یہ چل نہیں رہی “ میں نے ریس دباتے ہوئے لاچاری سے کہا۔
” آپ نے گئیر ہی نہیں ڈالا، چلے کیسے ؟ “ انہوں نے سر پیٹ لیا۔

چوک میں ہر طرف پاں پاں پاں ۔۔۔ ہو رہی تھی۔ میں نے شرمندہ ہو کر گاڑی پہلے گئیر میں کی اور چل پڑی ۔
” بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے“ میں کُوچہ یقیناً چوک کو کہا گیا ہے۔
الہی جلدی سے یوٹرن آجائے اور گھر کی راہ لوں ۔ مجھے سڑک اب پل صراط لگ رہی تھی ۔ اعصاب جواب دے چکے تھے اور لوگ سوال کر رہے تھے۔ اگرچہ سائیکل سوار اور ریڑھی بان مجھےاورر ٹیک کر نے لگے تھے۔ لیکن پیدل چلنے والوں کو میں نے اب بھی پیچھے چھوڑ رکھا تھا۔

گاڑی کبھی جھٹکا کھاتی کبھی غش ۔۔۔ سڑک پر اب ہٹو بچو کی کیفیت تھی۔ کچھ دور اندیش فٹ پاتھ پر چڑھ گیے تھے۔ مائوں نے بچوں کو بغلوں میں دبوچ لیا تھا۔ کچھ لوگ جو گھر سے لڑ کر آئے تھے جان بوجھ کر میرے سامنے آئے لیکن میں نے کمال مہارت سے ان کو بچا لیا۔

” آپ کو نظر نہیں آ رہا ، بیچ سڑک کے کھڑے ہیں ؟ “ میں نے شیشہ نیچے کرکے ڈھیٹ شخص کو ڈپٹ کر کہا۔ ” میں ٹریفک وارڈن ہوں “ اس نے پلٹ کر نمبر پلیٹ کو جھک کر دیکھا ۔
” تو سائیڈ پہ کھڑے ہوں ناں“ میں نے پیار سے کہا اور زن سے گاڑی لڑھکا دی ۔

تین کلومیٹر کے بعد سارا جوش اور جذبہ سرد پڑ گیا تھا۔
اب نہ نگہ بلند تھی اور نہ سخن دلنواز ۔۔۔۔۔۔ اگر باقی تھی تو بس جاں پُرسوز ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں