ھدیٰ ظہیر :
عجیب سی بے چینی تھی، تھکاوٹ اور الجھن سی..
تھکن کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ..
کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا..
اپنی اس حالت کی وجہ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی،
بہت غور کرکے سوچا تو کیا تھا آخر؟
بات تو اتنی ہی تھی کہ بچوں کے داخلے کا مسئلہ تھا
اور جس معیار کے اسکول میں وہ داخلہ کروانا چاہتی تھی ، بچے وہاں کا ٹیسٹ پاس نہیں کرسکے، لیکن اس کے ٹکر کے نہیں تو کم و بیش اس کے جیسے ہی اسکول میں داخلہ ہوگیا تھا۔
پر اسے اتنی بے چینی کیوں تھی، کسی بھی کام میں مزہ نہیں آرہا تھا. کتنی ہی بار اپنی جھنجھلاہٹ اور غصہ بچوں پہ نکال چکی تھی اور مستقل انہیں ملامت کررہی تھی.
پر اس میں ان کا قصور کیا تھا؟
یوں ہی وہ اپنے ماضی کو دہرانے لگی….
اس نے ہمیشہ بچپن سے یہی سنا تھا کہ اسے سب سے بہترین چیز حاصل کرنی ہے، ہمیشہ اول آنا ہے، دوسرے تیسرے نمبر پہ آنے کا تو کبھی سوال ہی پیدا نہیں ہوا تھا.
اور بھلا ہوتا بھی کیسے،
پہلی بار جب رپورٹ کارڈ گھر لائی تھی تو دیکھ کر کہا گیا تھا کہ تیسری پوزیشن کیوں؟ تمہیں تو اول آنا چاہیئے تھا،
یونہی بورڈ کے امتحانات میں اس کو سمجھایا گیا تھا کہ اب بھی ٹاپ کرنا ہے، پھر یونہی یونیورسٹی اور آگے کے سارے مراحل..
ہر میدان پڑھائی کا ہو، یا کچھ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اس کو یہ ہی پتا تھا کہ آگے نہیں سب سے آگے نکلنا ہے اسے.
اِس یونہی آگے رہنے کی دھن میں
وہ یہ تو بھولی بیٹھی کہ وہ یہ سب کیوں کررہی ہے؟
وہ کرنا کیوں چاہتی ہے؟
آج ایک ایک کرکے بچپن سے لے کر جوانی تک کا ہر واقعہ یاد آرہا تھا.
یونہی خیالات میں گم اسے اندازہ ہوا کہ اس کی زندگی تو اب انہی چیزوں میں کھو گئی ہے، نہ زندگی میں کوئی مزہ رہا نہ کوئی سکون.
صرف ایک نا ختم ہونے والی تھکن کا سلسہ اور بس!!
خود ہی ذہن میں اِن الجھنوں کو سلجھانے کی کوشش کرتے کرتے اسے خیال آیا کہ، اب وہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی تو یہی کررہی ہے.
پچھلے دنوں بچوں کی معمولی سی ریس میں اس نے احمد کو کہا تھا کہ تمہیں اول انعام لے کر آنا ہے اور سب سے آگے جانا ہے.
یہ کیا تھا ؟ یہ کیسی دوڑ تھی جس میں وہ بھاگ رہی تھی مستقل اور اب اپنے بچوں کو بھی…
نہیں!! اس لمحے اس نے یہ سوچا اور پکا ارادہ کیا کہ
اب یہ خوامخواہ کی آگے رہنے اور پرفیکشنزم کی دھن کو ختم کرنا ہوگا، وہ کم از کم اپنے بچوں میں یہ منتقل نہیں ہونے دے گی، وہ کم ازکم ان کے چہروں یہ تھکن نہیں آنے دے گی..انشاءاللہ.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن میں بہت سے ایسے ہی بہت سے جملے جو ارد گرد کے لوگ / بڑے کہتے ہیں، وہ آپ کے اندر کس کس طرح پراسس ہوتے ہے، اور کس طرح ذہن اور دل پہ اثرانداز ہوتے چلے جاتے ہیں.
یہ ہی مقابلہ بازی اور آگے بڑھنے کی غیر ضروری دھن پھر آپ کو اندر ہی اندر تھکاتی چلی جاتی ہے.. نتیجتاً حاصل سب کچھ ہو بھی جائے تو وہ پھر بھی خوب سے خوب تر حاصل کرنے کی دھن کہیں نہیں جاتی. اور انسان ایک نہ ختم ہونے والی vicious cycle میں داخل ہوجاتا ہے..
اپنے ایسے traits کو سمجھنا، اور ان کے اثرات کو سمجھنا اور ٹھیک کرنے کی کوشش کرنا بہت ضروری ہے اپنے لئے بھی اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بھی..