کرنسی سکے

نبی کریم ﷺ بحیثیت معیشت دان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

نبی کریم ﷺ دنیا کے بہترین معیشت دان ہیں جنھوں نے جہان کو اعلیٰ ترین نظام معیشت سے متعارف کروایا جو معاشی ضروریات پورا کرنے کے لیے اسراف و تبذیر اور بخیلی اور دیگر رذائل سے اجتناب کرتے ہوئے معتدلانہ طرزِ عمل پر مبنی ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ۔(الاحزاب : 21)
” تمہارے لیے رسول ﷺ کی مبارک ہستی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔“

انبیائے کرام علیہم السلام نے حالات کے مطابق مختلف پیشے اختیار کیے اور رزق حلال کے خوگر رہے۔
نبی کریمﷺ نے بھی حسب حالات وقتاً فوقتاً مختلف پیشے اختیار فرمائے۔ بکریاں چرائیں اور تجارت کی، محنت مزدوری کی، شراکت داری کی، بازاروں کے نگران کی ذمہ داری بھی سرانجام دی۔

آپ ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں کبھی اسراف و تبذیر نہیں کیا اور نہ ہی کبھی کنجوسی کی۔ بلکہ اعتدال اور میانہ روی کی بہترین مثال قائم کی۔ ہر پیشے میں امانت و دیانت داری سے اعلیٰ ترین کام کیا۔ بہترین اصول پیش کیے جن پر خود بھی ہمیشہ عمل پیرا رہے۔

آپ ﷺ عمر مبارکہ کے پچیس برس تک تجارتی سفروں میں اپنے عمدہ اخلاق و کردار، صداقت ودیانت، حسنِ معاملہ اور سچائی وغیرہ کی وجہ سے اتنے زیادہ معروف تھے کہ اہل مکہ نے آپ ﷺکو ” الصادق الامین “ کا لقب دے دیا تھا۔ اور لوگ آپ ﷺ کے پاس بے خوف و خطر اپنی امانتیں رکھواتے تھے۔

آپﷺ نے معاش و معیشت کے لیے مختلف اصول بیان فرمائے ہیں جو تا ابد لوگوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
کمائی کے چند بنیادی ذرائع میں تجارت، زراعت اور ملازمت اور مال غنیمت وغیرہ شامل ہیں۔ اور تمام پیشوں کے فضائل میں کئی احادیث مروی ہیں۔

اسلام نے ذرائع آمدن کے متعلق مکمل رہنمائی کی ہے کہ فلاں ذریعہ آمدن جائز ہے اور فلاں ناجائز۔ اور رزق حلال کے لیے ذرائع آمدن کی ترغیب دی ہے۔
ایکسپورٹ اور امپورٹ کے کاروبار کے لیے بھی شریعت نے اصول بیان کیے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ پیکر جود و سخا نبیﷺ نے معیشت کا ایک اہم اصول بیان کرتے ہوئےفرمایا کہ
ترجمہ: ” وہ شخص تنگ دست نہیں ہوا جس نے میانہ روی اختیار کی ۔“(مسند احمد: 4269)

ایک حدیث میں نظام زکوٰۃ کے بارے میں محسن انسانیت ﷺ نے بیان فرمایا
ترجمہ: ” ان کے (علاقے کے) امیروں سے (زکوۃ) لی جاتی ہے اور ان کے فقیروں پر لوٹائی (خرچ کی) جاتی ہے۔“ (صحیح بخارى، 1395)

معاشرے کے غریبوں کا خیال رکھنے کی ترغیب میں قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم۔ (الحشر: 7 )
ترجمہ: ” تاکہ دولت کی گردش تم میں سے صرف امیروں کے درمیان نہ رہے۔“

تجارت کی فضیلت میں مختلف آیات واحادیث بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إن اللّٰہ اشتریٰ من الموٴمنین أنفسھم وأموالھم بأن لھم الجنة۔ (التوبة: 111)
ترجمہ: ” اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں، (اور اس کے) بدلے میں اُن کے لیے جنت (تیارکی) ہے۔“

تجارت کی فضیلت میں دیگر کئی آیات بھی بیان ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک حدیث مبارکہ میں راست باز تاجر کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ
”التاجرُ الصدوقُ الأمینُ مع النبیینَ والصدیقینَ والشھدآء“․ (سنن الترمذي:1209)
ترجمہ: ” سچا، امانت دار تاجر(قیامت میں) انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔“

ترجمہ: حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ
” خرید وفروخت کرنے والے کو (بیع توڑنے کا) حق ہے، جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔ اگر بائع ومشتری سچ بولیں اور مال اور قیمت کے عیب اور کھرے کھوٹے ہونے کوبیان کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ہوتی ہے اور اگر عیب کو چھپا لیں اور جھوٹے اوصاف بتائیں تو شاید کچھ نفع تو کما لیں (لیکن) بیع کی برکت ختم کر دیتے ہیں۔“(صحیح بخارى: 2079)

نبی صدق و صفاﷺ نے شراکت داری کے بنیادی اُصول بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
ترجمہ: ” حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ بےشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” میں دو شریکوں میں تیسرا ہوتا ہوں جب تک ان دونوں میں سے ایک اپنے ساتھی سے خیانت نہ کرے۔ پھر اگر وہ خیانت کرے تو میں ان دونوں کے درمیان سے نکل جاتا ہوں۔“ (ابوداؤد: 3383)

تجارت کے علاوہ زراعت افضل پیشہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرمﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ :
ترجمہ: ” کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی جانور کھا لے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔“ (جامع ترمذي :1382)

اور صحیح مسلم کی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ
ترجمہ: ” اس میں سے کچھ چوری ہو جائے تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ شمار ہوتا ہے۔“

حلال رزق کا مطلب کسان سے پوچھو
پسینہ بن کے بدن سے لہو نکلتا ہے

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلامی احکامات کے مطابق صرف حلال پیشے اختیار کرکے رزق حلال کمائیں، اور حصول معاش سے قبل اس کا شرعی علم بھی حاصل کریں تاکہ وہ حلال و حرام میں تمیز اور فرق کر سکیں اور صرف رزق حلال کے خوگر ہوں۔

مسلمانوں کے لیے معاشی اخلاقیات بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں جن میں امانت و دیانت، صداقت، ایفائے عہد، حسنِ معاملات، وسعت ظرفی، نرمی، کشادہ دلی، وضاحت وصراحت، خرچ میں اعتدال اور حلال وحرام کے واضح تصورات شامل ہیں۔

تجارت کے اصول و ضوابط
شریعت نے حلال معاش کے لیے مختلف اصول وضاحت سے بیان کیے ہیں۔ اور دھوکہ اور جھوٹ و فریب سے سختی سے منع کیا ہے۔ دھوکے سے خراب مال بیچنا، جھوٹی بولی دینا، تجارتی مال پر اجارہ داری قائم کرنا، نماز جمعہ کے اوقات میں تجارت کرنا، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، رشوت لینا اور دینا، جوا اور لاٹری سسٹم، سودی کاروبار کرنا وغیرہ سب حرام اور ناجائز امور ہیں جن کی بنیاد پر کی گئی کمائی میں انسان کے لیے برکت و رحمت نہیں ہوتی۔

اس کے علاوہ اسلام کے اقتصادی نظام میں اخلاقی اقدار کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جن میں تقویٰ، احسان، ایثار، عدل، اخوت، تعاون، توکل، قناعت اور مساوات اہم ہیں۔

اسلامی معاشی نظام کی حدود میں مندرجہ ذیل معاملات بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں :
اول : انفرادی ملکیت کا تصور
دوم : ملکیت کے حقوق
سوم : تجارت میں نقصان دہ عوامل
چہارم : معاشرے کا خیال

یہ اسلامی نظام معیشت کی ایک جھلک ہے۔ صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور پھر جس فرد اور قوم نے اسے اپنایا، وہ ترقی کی اوج ثریا تک پہنچ گئے۔ نبی کریمﷺ کا قائم کردہ اسلامی نظام معیشت دنیا کا بہترین اقتصادی نظام ثابت ہوا ہے۔ اور یہ جہان کے لیے تا قیامت مینارہ نور اور زاد راہ ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “نبی کریم ﷺ بحیثیت معیشت دان” جوابات

  1. Ilyas Avatar
    Ilyas

    ماشاء اللہ. بہت اعلیٰ!
    Great, effective and nice Article!

  2. Abid Avatar
    Abid

    ماشاء اللہ بہت عمدہ مضمون ہے. پڑھ کر معلومات میں اضافہ ہوا ہے.

  3. احمد Avatar
    احمد

    ماشاء اللہ بہت خوب.

  4. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت تحریر!