کینولی کیفے، اسلام آباد میں انگریزی زبان میں کمزور مینیجر کی توہین

کینولی کیفے کا واقعہ ، پانچ اہم سوالات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سعدیہ نعمان :

کیفے کی اصل کہانی کیا ہے اس کا تو علم نہیں اور جاننے کا کچھ ایسا تجسس بھی نہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس واقعہ کے ردعمل میں سوشل میڈیا پہ ایک کارآمد مثبت اور دلچسپ بحث کا آغاز ہو گیا ہے ۔ اس بحث کے کئی پہلو ہیں جن میں سے زیادہ نمایاں یہ ہیں :

اول ۔ کیا کسی غیر زبان پہ عبور نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ نہ جاننے والا شخص علم و عقل میں ذہانت و صلاحیت میں کم تر ہے ؟

دوم ۔ انگریزی زبان جس طرح ہمارے معاشرے میں ایک فخر اور رعب کی علامت بن چکی ہے اور اس مرعوبیت سے جو رویے تشکیل پا رہے ہیں وہ درست ہیں؟

سوم ۔ اگر آپ کا تعلق کسی ایسے ماحول سے ہے جہاں انگریزی بولی اور سمجھی جاتی ہے یا آپ ایسے اداروں سے تعلیم یافتہ ہیں جہاں انگریزی میڈیم رائج تھا اور اسی وجہ سے آپ کو بھی اس زبان پہ عبور ہے تو کیا اس بنیاد پہ آپ انگریزی نہ جاننے والوں کی تضحیک اور تذلیل کا حق رکھتے ہیں؟

چہارم ۔ کیا قومی زبان اردو بولنے اور لکھنے والے ترقی کے اعلی مدارج تک نہیں پہنچ سکتے؟

پنجم ۔ اور کیا بحیثیت قوم ہمارے مجموعی رویہ میں بھی کہیں نہ کہیں کیفے مالکان کے رویہ کی جھلک نہیں ملتی ؟

جھگڑا کسی بھی زبان سے نہیں ہے کہ کوئی بھی زبان سیکھنے اوربوقت ضرورت استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ اس موئی انگریزی سے مرعوبیت کا ہے ، اس احساس کمتری کا ہے جو انگریزی بولنے والوں کی اچھی انگریزی سن کے ہم جیسے عام افراد کے اندر پیدا ہوتا ہے اور ہم گورنمنٹ کے اردو میڈیم اداروں سے تعلیم یافتہ عوام سوچنے لگتے ہیں کہ کم از کم اب ہمارے بچے تو ضرور انگریزی سیکھیں اور ہم بھی فخر سے سر اٹھا کے چل سکیں، اس چکر میں بچوں کو نہ مادری زبان سکھاتے ہیں نہ ہی قومی زبان سے آشنا کرواتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عجیب مغلوبہ سا تیار ہو جاتا ہے۔

میں نے بہت سے بزرگ والدین کو آہیں بھرتے اور روتے دیکھا ، انھیں شکوہ تھا کہ ہمارے بچوں کے بچے ہمارے پاس نہیں بیٹھتے ، ہم سے بات نہ کرتے ہیں نہ ہی ہماری بات سمجھتے ہیں یعنی قومی یا مادری زبان کا جو واسطہ تھا وہ ختم ہوا تو دادا دادی پوتے پوتیوں کے اتنے پیارے رشتے بھی کمزور پڑنے لگے۔

دوسری جانب ایسے مخلص بھی دیکھے جو غیر ملکوں میں رہ کے بھی متفکر رہے اور بچوں کو اپنی تہذیب اور زبان سے جوڑے رکھا اور رشتوں کو کمزور نہ پڑنے دیا۔
اگرچہ میڈیا پہ ایک ہنگامہ آرائی کے بعد دفعتاً کوئی نیا قصہ سامنے آجائے تو سب اس جانب چل نکلتے ہیں
لیکن
اردو انگریزی کی اس بحث سے کچھ اچھے نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے۔

اردو زبان کو سیکھنے کا شوق بھی ہمیں ہی اپنے بچوں میں منتقل کرنا ہے اور اسے لکھنے پڑھنے میں دلچسپ اور آسان بنانا ہے اس ضمن میں آپ کو بتاتے چلیں کہ پچھلے دنوں ” سنو کہانی ٹیم “ نے اردو زبان میں بچوں کے لئے کہانی کہنے کا مقابلہ منعقد کیا جس کو بہت پزیرائی ملی۔ معصوم اور پیارے بچوں نے اردو میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

آج ہی یوتھ کلب کے ایک لائیو سیشن کو سننے کا موقع ملا وہ بھی اسی موضوع پہ ایک بہترین کاوش تھی
تو جناب بات یہ ہے کہ شیکسپیئر ، ملٹن برنارڈ شا ، ورڈز ورتھ وغیرہ بھی ضرور پڑھیے اور سر دھنیے لیکن کچھ وقت اپنی قومی زبان کو سیکھنے ، پڑھنے اور ترویج دینے پہ بھی صرف کیجیے۔
اور یاد رہے کہ اصل عزت تو بلند اخلاق و کردار کی ہی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں