عاصمہ شیرازی :
بچپن میں ایک کہانی اُردو کے نصاب میں پڑھائی جاتی تھی جس کا عُنوان تھا ’سویا ہوا محل۔‘ اس کہانی میں ایک دیو سارے محل پر جادو کر دیتا ہے اور خوبصورت شہزادی کو اغوا کر لیتا ہے۔ اس محل میں بسنے والے سب کے سب جادو کے زیر اثر سو جاتے ہیں، دربان پہرہ دیتے ہوئے، وزیر دربار میں بیٹھے ہوئے، شہزادے، شہزادیاں چہل قدمی کرتے ہوئے، مشیر واہ واہ کرتے ہوئے۔۔۔ غرض جو جہاں تھا سو گیا۔
انجام ہر کہانی کی طرح ایک شہزادے کی صورت ہوا اور پھر اس کے ہاتھوں دیو کی شامت وغیرہ وغیرہ۔۔۔ مجھے انجام تو نہیں البتہ محل اور شہر کی صورتحال کبھی نہیں بھولی، خاص کر موجودہ حالات میں جب تمام کا تمام ملک سویا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
چند دنوں میں ہی کیا کیا بُری خبریں آئی ہیں۔ ایک جانب براڈ شیٹ سکینڈل جس میں پاکستان جیسے غریب ملک کو اربوں روپے کا نقصان، سنہ 2000 سے بدعنوانی کی تحقیقات کرنے والی براڈ شیٹ کمپنی جنرل مشرف کے زمانے میں شریفوں کی لُوٹی رقم ڈھونڈنے کے لیے ہائر ہوئی اور انھی کے دور میں نواز شریف سمیت ’دو سو شریفوں‘ کی مال و دولت کا پتہ لگانے لگی۔
چند ایک تحقیقات کے بعد جب مطلوبہ نتائج پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور ق لیگ کی صورت نکل آئے تو معاہدہ ختم۔
قصہ مختصر معاہدہ تو ختم ہوا مگر قصہ نہیں۔ براڈ شیٹ معاہدہ عدالت پہنچا اور برطانیہ کی عدالت نے فیصلہ پاکستان کے خلاف لکھ دیا۔ جرمانہ عائد ہوا، وہ بھی ادا نہیں ہوا اور یوں پاکستان ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس منجمد ہوئے۔
پوری دُنیا میں جگ ہنسائی ہوئی، معاشی مشکلات کے شکار وطن عزیز کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگا، عالمی سطح پر سُبکی اٹھانا پڑی، بڑی بڑی خبریں لگیں مگر محل سوتا رہا۔
دوسرا بڑا واقعہ برادر اسلامی ملک ملائیشیا میں پی آئی اے کا طیارہ روکنے سے متعلق ہے۔ اس طیارے کے روکے جانے کی خبریں بھی شہ سُرخیاں بنیں۔
ماضی بعید یا قریب میں کبھی ایسا سُنا نہ دیکھا کہ کسی دوسرے ملک کے طیارے کو مسافروں سمیت کسی اور سرزمین پر روک لیا جائے اور وجہ لیز کی مد میں چودہ ملین ڈالرز کی خطیر رقم کی عدم ادائیگی۔
جہاز رُکا، سواریاں اُتاری گئیں، ہرے رنگ کے پاسپورٹ کو رُسوا کیا گیا اور قومی کیریئر کو زنجیروں سے باندھ دیا گیا وہ بھی اس برادر ملک کے ہاں جس کی کبھی ہم مثالیں دیا کرتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ لیز کے طیارے کو ایسی صورت میں اُڑنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ ان معاملات کو طے کیو ں نہ کیا گیا مگر جواب کہاں سے آتا، محل سو رہا تھا۔
جہاز اور براڈ شیٹ کی آفت ٹلی نہیں کہ ریکوڈک کا معاملہ حتمی طور پر اپیل کے لیے عدالت جا پہنچا ہے۔ یہ معاملہ بھی عجب معاملہ ہے پاکستان اور ٹیتھیان کمپنی کے درمیان معدنیات، سونے تانبے کے خزانے ڈھونڈنے کا معاہدہ سنہ 1993 میں طے پایا جو سنہ 2013 میں اعلی عدالت کے فیصلے کے بعد ختم ہوا۔
اب عدالت تو عدالت ہے اُس کو کون پوچھے کہ پاکستان سا غریب ملک یہ چھ ارب ڈالرز کہاں سے ادا کرے گا؟ اُوپر سے غیر ملکی عدالت نے جُرمانے کی مد میں بیرون ملک رجسٹرڈ واحد کمپنی پی آئی اے کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ دے رکھا ہے جس کے کُل اثاثے مل کر بھی چھ ارب ڈالرز کا عشر عشیر نہیں۔
اب دل دھڑک رہا ہے کہ شاید غیر ملکی عدالت ہی ہماری حالت ہر کچھ رحم کردے اور وہ اپیل میں کوئی مان رکھ لے۔
اس پر بھی جناب وزیراعظم نے گذشتہ برس ایک کمیشن بنانے کا اعلان فرمایا تھا جسے سنہ 1993 سے لے کر اب تک اس بھاری نقصان کے ذمہ داروں کا تعین کرنا تھا مگر معلوم نہیں کہ وہ کمیشن کہاں گیا۔
براڈ شیٹ پر بھی ایک کمیٹی تشکیل پا گئی ہے مگر نہ جانے کھوج لگانے والی براڈ شیٹ کمپنی کے پیچھے کون تھا اور جنرل مشرف نے معاہدہ کیوں کینسل کیا۔۔۔ کمیٹی اس کا کھوج لگا پائے گی یا بس فرضی، عارضی، کاغذی کارروائی؟
ایل این جی معاملے اور اندرونی گردشی قرضوں پر کیا لکھیں کہ وہ بحران بھی سر پر کھڑا ہے۔
نہ جانے کیوں گزشتہ کئی دنوں سے احمد شمیم کی شہرہ آفاق نظم کے چند اشعار بہت یاد آ رہے ہیں کہ
کبھی ہم بھی خوبصورت تھے۔۔۔!
کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی!
بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے !
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے۔۔۔ ۔۔امی!
تتلیوں کے پر بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
کہ ہم کو تتلیوں کے’ جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو’ روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
( بشکریہ بی بی سی )