اسلام آباد، الیکشن کمیشن کے باہر پی ڈی ایم کا مظاہرہ

تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس ، بعض اہم سوالات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اعوان :

پاکستان میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے گزشتہ روز الیکشن کمیشن پاکستان کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے میں اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان کی بڑی تعداد شریک ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ شارعِ دستور کے دونوں جانب انصاف دینے والے ادارے ہیں مگر ’ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس میں نہ آئین ہے نہ انصاف ‘۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا ’ سب سے بڑا فراڈ ‘ تحریکِ انصاف فارن فنڈنگ کیس ہے۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو یہ فنڈنگ انڈیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رکن اندرجیت دوسانجھ کی طرف سے ہوئی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ غیر ملکی فنڈنگ بلوچستان یا چھوٹے صوبوں کی کسی جماعت کا معاملہ ہوتا تو ان پر غداری کے الزامات لگائے جاتے۔

تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس ہے کیا ؟

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں کوئی سیاسی مخالف جماعت نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سنہ 2014 میں لے کر آئے تھے۔

اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ اُنھوں نے سنہ 2011 میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے سامنے اٹھایا تھا اور یہ کہا تھا کہ پارٹی کے ایک اور رکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس معاملے کو دیکھے لیکن اس پر عمران خان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی بنا پر وہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر گئے۔

اکبر ایس بابر کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں جماعت کے لیے وہاں پر رہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکھٹے کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبیلیٹیز کمپنیاں بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا فنڈ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیا گیا۔

اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کا الیکشن کمیشن میں اس درخواست کو لے کر جانے کا مقصد کسی جماعت پر پابندی لگوانا نہیں اور نہ ہی کسی کی عزت کو اُچھالنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والے فنڈز سے ملکی سلامتی پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سنہ 2014 میں لے کر آئے تھے۔

الیکشن کمیشن میں اس درخواست کا کیا بنا؟

جب اکبر ایس بابر کی طرف سے یہ درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی تو اس پر کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے یہ معاملہ مختلف اوقات میں چھ مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے جایا گیا اور یہ مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکائونٹس کی جانچ پڑتال کا اختیار نہیں۔

ایک مرتبہ حکم امتناع ملنے کے بعد جب عدالت عالیہ نے مزید حکم امتناع دینے سے انکار کیا تو پھر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار اور مبینہ طور پر اسے کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کیے گئے۔

واضح رہے کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی نے جب موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تو اس کے ساتھ ایک متفرق درخواست فارن فنڈنگز کے حوالے سے بھی دی گئی تھی جس پر سپریم کورٹ نے سنہ 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمشن کو سنہ 2009 سے 2013 کے دوران اس جماعت کو جتنے بھی فنڈز ملے اس کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔ سنہ 2014 سے لے کر 2018 تک یہ معاملہ مختلف عدالتی فورمز پر زیر بحث رہا ہے۔

جب الیکشن کمیشن کے حق سماعت پر سپریم کورٹ نے مہر تصدیق ثبت کردی تو پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب نے کہا ” اس وقت پاکستان اور دنیا بھر میں ان کی جماعت کے 40 ہزار سے زیادہ ڈونرز ہیں جو ان کی جماعت کو چندہ دیتے ہیں۔ ان کے بقول ان تمام ڈونرز کی فہرست الیکشن کمیٹی کی سکروٹنی کمیٹی کے حوالے کی جا چکی ہیں۔“

کافی عرصے تک پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف رہا ہے کہ اُنھوں نے بیرون ممالک سے جتنے بھی فنڈز اکھٹے کیے ہیں وہ قانون کے مطابق ہیں لیکن گزشتہ دنوں حکمراں جماعت کی طرف سے جو بیان سکروٹنی کمیٹی کو پیش کیا گیا اس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ
اگر بیرون ممالک سے حاصل ہونے والے چندے میں کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ اس ایجنٹ پر عائد ہوتی ہے جس کی خدمات اس کام کے لیے لی جاتی ہیں۔

اسی جواب کو بنیاد بناتے ہوئے حزب مخالف کی جماعتوں نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کیے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا یہ نکتہ اہم ہے۔ تحریک انصاف کو ایک ایک قدم پسپائی اختیار کرنا پڑ رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گیے ایک حالیہ انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ
” دو ملکوں نے انھیں انتحابات میں مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول نہیں کی تھی۔“
عمران خان نے ان دو ملکوں کے نام یہ کہہ کر نہیں بتائے کہ
ان کے نام بتانے سے پاکستان کے ان ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہو جائیں گے۔

میرا خیال ہے کہ نام بتانے سے ان ممالک کے تعلقات پاکستان سے نہیں ، عمران خان اور تحریک انصاف سے خراب ہوسکتے ہیں۔ نام ظاہر کرنے کا فائدہ ہوگا اس سے پاکستان کے معاملات درست ہوں گے، آئیندہ کوئی ملک پاکستان کے سیاست دانوں کو فنڈنگ کی پیش کرتے ہوئے ہزار بار سوچے گا۔ بہتر ہے کہ عمران خان ان دونوں ممالک کے نام ظاہر کردیں۔ آخر ان ممالک کی حکومتوں کو جرات کیسے ہوئی کہ وہ پاکستان کے ایک گروہ کو فنڈنگ کی پیش کش کریں۔ اگر ان حکومتوں کے نام ظاہر نہ کیے گئے تو کل کلاں کسی دوسری پارٹی کو بھی ایسی پیش کش کرسکتی ہیں۔

دوسرا تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو غیرملکوں سے حاصل ہونے والی فنڈنگ کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔ تحریک انصاف کو اپنے خلاف بھی تحقیقات میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئیے۔ جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انھیں دو ملکوں یعنی وہاں کی حکومتوں نے فنڈنگ کی پیش کش کی تھی، ایسے ممالک دیگر گروہوں کو بھی فنڈنگ دے کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کا موقف ہے کہ یہ کیس بے بنیاد ہے۔ اگر یہ کیس بے بنیاد تھا تو پھر اس کے خلاف حکم امتناعی لینے کی کوششیں کیوں‌ہوتی رہیں؟ اگر کسی نے چوری کی ہو ، اس کے پاس مال مسروقہ ہو، پکڑے جانے پر اس کی تلاشی کی کوشش کی جائے تو وہ تلاشی دینے سے کتراتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کے خلاف کچھ بھی نہیں تھا تو اسے تلاشی دینے سے کترانا نہیں چاہئے تھا۔ لیکن تحریک انصاف کی کوشش رہی کہ وہ اس کیس کی سماعت ہی نہ ہو، جب سماعت روکنے کی تمام تر کوششیں ناکام رہیں تو پھر الیکشن کمیشن پر سوال اٹھانا شروع کردیا کہ اس کے پاس ایسا کوئی حق ہی نہیں ہے۔ آخر تحریک انصاف نے یہ رویہ کیوں‌اختیار کیا ؟

آج الیکشن کمیشن اسلام آباد کے باہر مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز شریف نے عمران خان پر انڈیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رکن اندرجیت دوسانجھ کی طرف سے فنڈنگ کا جو الزام عائد کیا، سوال یہ ہے کہ کیا اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟

مریم نواز نے آج کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا فارن فنڈنگ میں الیکشن کمیشن نے سات برسوں میں صرف 70سماعتیں کیں۔ 70 سماعتوں کے دوران عمران خان نے اس مقدمے کو ملتوی کرانے کی 30 بار کوشش کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 3 سال سے قائم اسکروٹنی کمیٹی بھی حکمرانوں کی تابعدار بن گئی ہے، عمران خان نے 24 بار کارروائی روکنے کی کوشش کی، 4 درخواستیں کارروائی خفیہ رکھنے کےلیے دی گئیں۔

اگر ایسا ہے تو عمران خان نے جو کچھ کیا، سو کیا، الیکشن کمیشن اور سکروٹنی کمیٹی اس قدر سنگین معاملے کو اس قدر زیادہ سست روی سے آگے کیوں بڑھا رہی ہے؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرنے میں چھ سال کیوں لگا دئیے؟ کیا فیصلے میں تاخیر اس کی اپنی ساکھ کے حوالے سے شکوک وشہبات کو جنم نہیں دیتی؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں