ڈاکٹر میمونہ حمزہ :
گڈی باجی چھے بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی، سکینہ بیگم اور فیاض چوہدری کے آنگن کی پہلی کلی، حسن اور تازگی کا مرقع! جن کی ہر فرمائش کو حکم سمجھنے والے والدین بھی تھے اور بھائی بھی! اسی لئے وہ مشورہ بھی دیتیں تو سننے والے اس کی تعمیل میں لگ جاتے۔
ہمارا بچپن سے ان کے ہاں آنا جانا تھا، گڈی باجی کالج میں پڑھتی تھیں اور ہم سکول میں۔ ان کی ہماری باجی سے دوستی تھی، اور اسی ناتے ہم بھی ان کے قریب ہو گئے۔ گڈی باجی بڑی صالح سوچ رکھتی تھیں، محلے میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع ہوا توانہوں نے ہمارے یعنی طالبات کے لئے درس کا اہتمام شروع کر دیا۔ ہم ہر ہفتے درس ِقرآن سننے ان کے گھر پہنچ جاتے، اور دیکھتے ہی دیکھتے محلے کی کافی لڑکیاں ان کے ہاں جانے لگیں۔
اس زمانے میں لڑکیاں میٹرک تو آسانی سے کر لیتی تھیں مگر ایف اے میں انگلش کے مضمون میں بار بار ناکامی ان کی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھنے میں رکاوٹ ڈال دیتی۔ گڈی باجی کا معاملہ مختلف تھا، انہوں نے ایک ہی جست میں ایف اے پاس کر لیا تھا مگر وہ بی اے میں انگلش میں فیل ہو گئیں، اور پھر ہماری اتنی پیاری سی باجی کو انگلش کا ایسا دھکا لگا کہ وہ اٹک ہی گئیں۔
ہر سال دو مرتبہ امتحان دیتیں، پھر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا، حتیٰ کہ ضمنی امتحان کے سارے مواقع گزر گئے مگر گڈی باجی پاس نہ ہوئیں۔ وہ اتنی باہمت تھیں کہ نئے سرے سے ایک مرتبہ پھر سارے مضامین کا امتحان دیا، لیکن انگلش پھر اٹک گئی، بس اس کا اتنا فائدہ ہوا کہ اب وہ پھرضمنی امتحان میں شامل ہو سکتی تھیں، لیکن کامیابی ابھی تک ان سے دور تھی۔
اب تو ان کے چھوٹے بھائی بھی ایک ایک کر کے بی اے پاس کر چکے تھے، محلے کی سکول جانے والی بچیاں کالج پہنچ گئی تھیں۔ گڈی باجی کے انگلش کے پرچے کا رزلٹ آنے کا بھی اب کسی کو انتظار نہ ہوتا۔ہم شرم کے مارے ان سے رزلٹ پوچھنے کا بھی تکلف نہ کرتے۔
ایک روز ہم ان کے ہاں درس میں شرکت کرنے پہنچے تو تازہ تازہ مٹھائی پیش کی گئی۔ ہمارے کسی اندازے سے پہلے ہی گڈی باجی کی امی نے بتایا، ’’اج ساڈی گڈی پاس ہو گئی ہے‘‘۔ ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا، آج تو گڈی باجی کی مسکراہٹ بھی چھپائے نہ چھپ رہی تھی۔ ہم نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھا، ان کی چمکتے ہوئے چہرے پر ایک سایہ بھی تھا، جانے جوانی ایک امتحان ہی کے پاس کرنے میں گزر جانے کا دکھ تھا۔
گڈی باجی کے پاس ہونے کے بعد ان کی امی کو ان کا گھر بسانے کی فکر ہوئی۔ اس زمانے میں بی اے اور بی آ (یعنی بیاہ) کا محاورہ بھی بولا جاتا تھا، گڈی باجی خوبصورت تھیں، سلیقہ شعار بھی، اور اب تو بی اے بھی ہو گئی تھی۔ کئی گھرانوں نے ان کے ہاں ایسے ہی کنکر مارے جیسے بیری کے درخت پر مارے جاتے ہیں، مگر ان کی امی کو کوئی بھی رشتہ پسند نہ آتا۔
کسی کے نسب میں نقص تو کسی کے حسن میں، کسی کی ملازمت اچھی تو خاندانی وجاہت میں کمی پسند نہ آتی، جس طرح ہر سال دو مرتبہ ممتحن ان کا پرچہ فیل کر دیتا تھا اسی طرح ان کی والدہ ان کے رشتے کے لئے آنے والے امیدواروں کو فیل کرتی چلی جا رہی تھیں، اسی دوران ہماری باجی کی شادی ہو گئی تھی، اب وہ دو بیٹوں کی والدہ بن گئی تھیں، اور درس میں آنے والی کئی لڑکیوں کے گھر بھی بس چکے تھے، مگر گڈی باجی کے لئے مناسب بر نہ ملا تھا،
کئی سمجھدار خواتین نے ان کی والدہ کو سمجھانا چاہا، مگر ان کا ایک ہی جواب تھا، ’’میں گڈی نوں کھوں وچ سٹ دیواں؟‘‘ (میں گڈی کو کنویں میں پھینک دوں)، اگر کوئی خاتون اس کے بعد بھی زمانے کے نشیب و فراز سمجھانے کی کوشش کرتیں تو وہ تنک کر کہتیں:
’’چھے بھراواں دی اکو اک پین ہے میری گڈی، تیلے تو وی ہولی ہے ساڈے تے۔۔‘‘، (چھے بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے میری گڈی، ہم پر پرکاہ سے بھی ہلکی ہے، یعنی ہم پر بوجھ نہیں کہ اسے گھر سے دھکا دے کر نکال دیں)۔
گڈی باجی یہ سب خاموشی سے سنتی رہتیں، اور کبھی ایک لفظ نہ بولتیں، شاید اس زمانے میں بیٹیوں کو خاموشی ہی کی تعلیم دی جاتی تھی۔
گڈی باجی کے گھر والے شہر کے دوسرے حصّے میں منتقل ہو گئے، تو ہمارا ان سے رابطہ بھی کٹ گیا، پھر اچانک ایک روز ان کی والدہ ہنستی مسکراتی ہمارے گھر آئیں، اور بتایا کہ گڈی باجی کی اگلے مہینے شادی ہو رہی ہے، خوشی سے ان کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے،
پنجاب کے نسبتا ایک چھوٹے شہر سے ایک زمیندار کے بیٹے کا رشتہ ان سے طے ہوا تھا، جو گدی نشین بھی تھا۔ سات بہنوں کا اکلوتا بھائی! زمینوں کا وارث اور سب مال جائیداد کا بھی! امی نے گڈی باجی کے سسرال والوں کی دینی سوچ کے حوالے سے پوچھا تو وہ بولیں: ہاں جی مسلمان ہیں نا، پنج وقتہ نمازی! دین دار ہی ہوئے نا۔ اس کی ماں کہتی ہے کہ کسی کو بھی کوئی دکھ تکلیف ہو، ہمارا ہی بوا کھٹکھٹاتے ہیں۔ بڑا فیض ملتا ہے سب کو یہاں سے، پورا علاقہ عزت کرتا ہے۔
شادی والے دن بارات پوری شان سے آئی، فوجی بینڈ کا دستہ ، اور ڈھول بتاشے، اور بری کے پانچ بڑے سوٹ کیس، جن کی ایک ایک چیز پھیلا کر دکھائی گئی، گڈی باجی کی امی کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ دولہا والوں نے زبانی کلامی ہی امارت کے دعوے نہ کئے تھے، بلکہ وہ ان کی گڈی کو سونے میں لاد کر لے جا رہے تھے۔ انہوں نے توجہ ہی نہ دی تھی، کہ بری کے اکثر جوڑے آدھی آستین والے تھے، گرمیوں کے موسم میں آنے والی بری میں سردیوں کا بھی پورا سامان موجود تھا، مگر گڈی باجی کے لئے ایک بھی برقعہ تھا نہ سکارف!
گڈی باجی کا جہیز بھی قیمتی تھا، پڑوس کے دو گھروں میں چارپائیاں بچھا کر ، ان کا جہیز پھیلایا گیا تھا۔ نجانے بیٹی کی پیدائش کے وقت سے ہی انہوں نے جہیز تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ شادی میں شریک کتنے ہی لوگ گڈی باجی کی قسمت پر فخر کر رہے تھے۔
گڈی باجی رخصت ہو گئیں، اور ہمیں تو فقط ایک بات کا دکھ تھا۔ گڈی باجی کا اونچا لمبا، کالا کلوٹا شوہر تو ان کے جوڑ کا نہ تھا، حالانکہ ان کی امی نے تو کہا تھا، چاند سورج کی جوڑی ہے۔ گڈی باجی تو یقیناً چندے ماہتاب تھیں، مگر ان کا دولہا چندے آفتاب تو درکنار گندم گوں بھی نہ تھا، بس سیاہ سی رنگت تھی، بڑی بڑی مونچھیں اور گردن میں سریا۔
گڈی باجی ہمارے لئے داستانِ پارینہ بن گئی تھیں، لیکن پھر اچانک وہ ہمارے گھر ملنے آگئی۔ دو بیٹیاں ہمراہ تھیں۔ بڑی بیٹی تو بالکل ان جیسی تھی، ہاتھ لگانے سے میلی ہونے کا ڈر، دوسری کچھ کچھ باپ پر تھی۔ گڈی باجی تو پہلے بھی کم گو تھیں، اب تو شاید بولنا بھی بھول جاتی تھیں۔ ان کا چہرہ کملا گیا تھا۔
انہوں نے بمشکل بتایا کہ عید پر ان کے بھائی انہیں لینے سسرال گئے تھے، وہ ان کے ہمراہ والدین کے گھر آئی تھیں، مگر تین ماہ سے کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ وہ جب بھی گھر فون کرتی ہیں ان کی ساس یا سسر ہی اٹھاتے ہیں، اور شوہر سے بات بھی نہیں کرواتے۔ البتہ ان کے بھائی کو انہوں نے اسی وقت بتا دیا تھا کہ اگر گڈی کو پردہ کرنے پر اصرار ہے تو اسے وہیں رکھ لینا۔ ہماری برادری ہے، میل ملاقات اور تعلق داریاں ہیں، داماد اور ان کے گھر والوں کا آنا جانا ہے، ہم بہن بھائیوں کی طرح ملتے ہیں، ہنستے بولتے ہیں، مگر یہ اپنی بکل ڈھیلی نہیں کرتی۔ اتنے عرصے میں بھی یہ دل سے ہماری نہیں بنی۔
گڈی باجی نے ٹھنڈی آہ بھری، گالوں پر بہنے والے آنسؤوں کو بے دردی سے مسل کر بولیں: میں کسے بتاؤں، کہ اپنا گھر آباد رکھنے کے لئے میں کس طرح سارا دن کام میں لگی رہتی ہوں، کبھی کسی کام سے پیچھے نہیں ہٹی۔ زمینداری کے معاملات سے نا بلد تھی، تو وہ بھی سیکھ لئے، قرابت داروں سے روابط بھی رکھے، اور سات نندوں کے سسرالی رشتوں کو بھی نبھایا۔ان سب کی نگاہوں میں میرا عیب فقط یہی ہے کہ میں پردہ دار ہوں۔
گڈی باجی کو رخصت کر کے دیکھا تو ایک کاغذ کمرے میں گراہواتھا۔ یہ ان کی بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹ تھی، جسے دیکھ کر ہماری باجی نجانے کیوں افسردہ ہو گئیں، لیکن پھر بے اختیار دعا کو ہاتھ اٹھا لئے، شاید یہی خوشی حالات پلٹانے کا سبب بن جائے۔
اس روز میں بازار میں خریداری میں مصروف تھی، جب کچھ دور بچوں کے ہمراہ ایک شناسا چہرے پر میری نگاہیں ٹک گئیں، بڑی سی چمکدار گاڑی سے نکلنے والی خاتون کا دوپٹہ پھسل کر کندھوں پر آ گرا تھا، وہ بچے کو اٹھائے پارکنگ سے اندر آ رہی تھیں، لیکن یہ کون تھیں؟ میرے ذہن میں جھپاکا ہوا:
گڈی باجی؟! میں نے اپنے اندر ابھرنے والے سوال پر زور سے انکار میں سر ہلایا، لیکن پھر ایک نظر غور سے دیکھا۔ وہ گڈی باجی ہی تھیں، نئی تراش خراش کا لباس پہنے۔ گود میں تقریباً ایک برس کا بیٹا تھا۔ میں بھاگ کر ان کے پاس جا پہنچی۔
” گڈی باجی آپ؟! “
گڈی باجی نے میری جانب شرمندگی سے دیکھا، اور زیر ِ لب بولیں: ’’ گڈی تو مر گئی ‘‘۔
ایک سایہ ان کے چہرے پر لہرایا، اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ ہولے سے بولیں:
۔ ’’میرے سسرال والے اپنی بات کے پکے ہیں بہت! میں کافی عرصہ میکے میں رہی، مگر ان کی ایک ہی ضد تھی، واپس آنا ہے،تو اپنا پردہ وہیں چھوڑ کر آؤ۔ منظور ہو تو لینے آ جائیں گے۔ ‘‘
ادھر میکے میں بھی دباؤ بڑھنے لگا، پہلے تو اماں ہی دھیمے دھیمے سمجھاتی رہیں، اور پھر بھائیوں کے دل تنگ ہو گئے، ابا تو ریٹائر منٹ کے بعد معاملات سے بھی ریٹائر ہی ہو گئے تھے، اب تو بھابھیوں کے مشورے اہم ہو گئے تھے، جن کے خیال میں یہ کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا، جس پر گھر برباد کیا جائے۔
منے کی پیدائش کی خبر ملتے ہی اس کے قانونی وارث پہنچ چکے تھے، ان کے لبوں پر ایک ہی سوال تھا، بچے کو ہی لے جائیں یا تم بھی چلو گی؟ میں نے نظر اٹھا کر میکے کے مان اپنے بھائیوں کی جانب دیکھا تو ان کی سروں پر بوجھ ہی نہ تھا، ماتھے پر شکنیں بھی تھیں۔ میری جگہ ان کے دل میں ہو نہ ہو، اس گھر میں نہ تھی ، میں تو فقط ایک بوجھ تھی۔
مجھے ایسا لگا جیسے پرِ کاہ سے بھی ہلکی ’’گڈی‘‘ من من کے قدموں سے چلتی، میکے کا دروازہ پار کر رہی ہو! ( زندہ لاش بن کر!) رہا برقعہ ، وہ تو ’’ تیلے سے بھی ہولا ‘‘ ثابت ہوا تھا، جسے میکے والوں نے اپنے پاس ہی سنبھال لیا۔
٭٭٭