عارف ڈوگر ایڈیٹر روزنامہ ’ اباسین ‘ رحیم یار خا ن کی ولولہ انگیز سرگزشت
صحرانورد :
پاکستان میں ایک ایسا خاندان بھی مقیم ہے جس کے افراد کی کثیر تعداد صحافیوں پر مشتمل ہے۔ سابق وفاقی وزیر اور جماعت اسلامی کے سابق رہنما جناب مصطفی صادق مرحوم اس خاندان کے سرخیل ہیں۔ مصطفیٰ صادق کے ساتھ ساتھ ان کے بھانجوں قربان انجم اور انورجاوید ڈوگر کی یادداشتیں ہم ’ بادبان ‘ کے قارئین کی خدمت میں مسلسل پیش کر رہے ہیں۔ اسی خانہ تمام آفتاب قسم کے خاندان کے ایک اہم رکن محمد عارف ایڈیٹر روزنامہ ’ اباسین ‘ رحیم یار خان کا تعارف قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
” رشتے میں بھتیجے اور عمر میں بڑے سینئر صحافی جناب قربان انجم نے اس درویش کا تعارف مانگا ہے کہ وہ ’ بادبان ‘ میں شائع کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ اس طالب علم اور درویش کا تعارف کیا ہوگا یا کیا ہو سکتا ہے؟ صوفی شاعر نے کہا تھا کہ
میں گلیاں دا … رُوڑا کُوڑا
محل چڑھایا سائیاں
من آنم… کہ من دانم… گائوں کا رہنے والا جسے چھٹی جماعت میں یتیمی نے آن گھیرا۔ والدہ ، ایک چھوٹی بہن اور بھائی۔ 9 ، 10 ایکڑ زرعی زمین ، اللہ نے خوشحالی تو نہیں البتہ آسودگی سے زندگی گزارنے کا سازو سامان عطاء فرما رکھا تھا۔
آٹھویں جماعت تک گائوں کے سکول میں ایک میل پیدل سفر کرکے پڑھا اور آٹھویں کلاس میں اس وقت کے نان کمرشل اور مخلص اساتذہ سکول کے وقت کے بعد بھی شام کے وقت پڑھائی کیلئے روک لیتے تو اندھیرا ہونے پر والدہ محترمہ کم سن بیٹے کی فکر میں راستے میں ملتیں کہ کہیں ہجرت کے دوران کے حادثہ کے بعد دوبارہ نہ گم جائوں ۔
1963ء میں مڈل میں اچھے نمبر آنے پر گائوں کے دوست برادرم شمشاد علی کے توسط سے مسلم ہائی سکول ملتان میں جا داخلہ لیا کہ گائوں کے نزدیک میٹرک ہائی سکول جہانیاں (12 میل دور) اور چک 135 کا ہائی سکول بھی تین میل دور پڑتا تھا۔
مسلم ہائی سکول اس وقت ڈویژن بھر میں اپنے نتائج اور سپورٹس کی وجہ سے صف اول کے تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا تھا ۔ اس کے ہیڈ ماسٹر صاحب چودھری عبدالرحمن ہوتے تھے جو بھارت کی تحصیل دسُوھہ ضلع ہوشیار پور کے مسلم لیگ ہائی سکول کے بھی ہیڈ ماسٹر تھے اور ہمارے آبائو اجداد ۔۔۔ ڈوگروں کے 44 دیہاتوں کے بڑے بزرگوں کو جانتے تھے۔
ہیڈ ماسٹر صاحب سے ان کی رہائش گاہ پر ملا تو بڑی شفقت سے پیش آئے۔ داخلہ دیا ، فیس معاف کردی ، صرف ہاسٹل کے کھانے کا خرچہ جو میں نے خود دینے پر رضا مندی ظاہر کی چنانچہ 1965ء میں مسلم ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ ایک ڈیڑھ سال بعد اسی دوران میں قربان انجم کے بڑے بھائی چودھری غلام رسول ملتان میں ملازم تھے ان کی ضد‘ محبت اوراصرارپر ہاسٹل چھوڑ کر ہم ان کے ساتھ سورج میانی ملتان کے نواحی قصبہ میں رہنے لگے۔ میٹرک کے بعد ایمرسن کالج میں جو اس وقت گورنمنٹ کالج بوسن روڈ بن چکا تھا سال اول میں داخلہ لیا۔
میٹرک میں ہمارے ساتھی رائے احمد نواز ایم این اے چیچہ وطنی ہمارے ہاسٹل فیلو بھی تھے۔ ان کے والد محترم اور آغا خاموش ایڈووکیٹ مسلم لیگ سکول کے کسٹوڈین بھی تھے۔
گورنمنٹ کالج بوسن روڈ سے بی اے 1969ء میں کیا تو اس وقت تک قربان انجم اپنے بھائیوں غلام رسول‘ سعادت علی اور انور علی کے ہمراہ ’ وفاق ‘ رحیم یارخان ( 68-67 ) جوائن کرچکے تھے۔ عزیز داری کے ساتھ ہماری دوستی بھی تھی چنانچہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمیشہ ان کے ہاں جایا کرتا تھا۔ 1969ء میں محترم مصطفی صادق نے مجھے کراچی میں ایڈورٹائزنگ شعبہ (روزنامہ ’ وفاق ‘ کراچی) جوائن کرنے کی پیش کش دی اور مصطفی صادق جو قربان اینڈ برادرز کے حقیقی ماموں اور میرے بھی عزیزوں میں سے تھے، مجھے اپنے ساتھ کراچی لے گئے۔
ہم الفاروق ہوٹل الفی اسٹریٹ پر ہفتہ بھر رہے۔ واپسی پر مجھے ہمراہ لے آئے اور پھر خود لاہور چلے گئے جس کے بعد قربان صاحب نے بتایا کہ مصطفی صادق صاحب کہہ گئے ہیں کہ عارف نہ سگریٹ پیتا ہے نہ چائے‘ کراچی میں ایڈور ٹائزنگ ایجنسیوں کی لڑکیاں اسے ایسے دیکھ رہی تھیں کہ جیسے ’’ کریم رول ہو‘‘ ، مجھے شک پڑا کہ یہ لڑکیاں اسے کریم رول کی طرح کھا جائیں گی اور خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو میں چاچی (میری والدہ) کو کیا جواب دوں گا ؟ یہ کہ عارف کدھر گیا ؟
یہ دسمبر 71ء کی بات ہے ، میں نے قربان انجم سے کہا کہ میری والدہ کا پہلے دن سے اصرار ہے کہ ملتان آکر بی ایڈ کرو ، اس کے بعد گائوں میں ٹیچر لگ جائو ، زمین اور بہن بھائی کی دیکھ بھال کرو ، چنانچہ یہ طالب علم دوبارہ بوسن روڈ بی ایڈ کالج میں داخل ہوگیا ۔
اس سے قبل بی اے میں جب زیر تعلیم تھا تو ایک مرتبہ فوج میں جانے کا بھوت سوار ہوا ۔ تحریری امتحان ، میڈیکل ٹیسٹ اور انٹرویو پاس کرکے ISSB کے لئے کوہاٹ گیا مگر ان دنوں تیاری وغیرہ کا معلوم نہ تھا چنانچہ ناکام لوٹ آیا۔ دوسرا چانس نہیں لیا پھر اے ایس آئی کے انٹرویو کیلئے گیا تو انٹرویو لینے والے SP صاحب نے نصیحت کی کہ بیٹا ! آپ پولیس میں ہر گز نہ جائیں، آپ کا رزق کہیں اور لکھا ہے۔
بی ایڈ کے بعد ٹیچر بننے کیلئے درخواست دی تھی کہ لاہور کسی کام کے سلسلہ میں جانا ہوا، مصطفیٰ صادق صاحب نے بتایا کہ قربان صاحب اور ان کے بھائیوں کی پی پی کی نامزد ایم این اے زاہدہ سلطانہ (مطلقہ شوکت جج ہائیکورٹ) اے سی عبدالسلام کی بیٹی سے بہت زیادہ ان بن ہوگئی ہے اور محترمہ سے ان کی اس وقت کے گورنر مصطفی کھر کے ُروبُرو توتکار ہوگئی ہے جس کے سبب انتظامیہ کا پریشر ہے کہ وفاق کی انتظامیہ کو ہر صورت اور فوراً بدلو ۔
میرا جواب تھا کہ میری ہمشیرہ کی شادی ہے اور میں نے بی ایڈ کے بعد ٹیچر لگنے کا فیصلہ کیا ہے اور والدہ کا بھی یہی حکم ہے ۔ چنانچہ مصطفی صادق صاحب نے کہا کہ چلو آپ 15 روز کیلئے رحیم یارخان چلے جائو اس دوران میں ہم کوئی اور بندوبست کرلیں گے۔ جبکہ اس سے قبل موصوف اس خاکسار کے بارے میں قربان انجم صاحب کو کہہ چکے تھے کہ یہ کمسن بچہ اخبار کی دنیا کا بندہ نہیں ہے۔
ہم ان کے گھر پر تھے ۔ میں دوسرے کمرے میں گیا تو میری واپسی پر مصطفیٰ صادق صاحب گورنر اور بعدازاں ڈی سی اور ایس پی کو فون پر بتا رہے تھے کہ ’ وفاق ‘ رحیم یارخان کی انتظامیہ بدل دی گئی ہے اور ایک COMPITENT بندہ رحیم یارخان پہنچ رہا ہے ۔
فون کے بعد میں نے مصطفی صادق صاحب سے گزارش کی کہ اب تو رحیم یارخان میرے جانے کی ضرورت نہیں کہ مناسب آدمی کا اہتمام ہوگیا ہے ، ان کا برجستہ جواب تھا کہ یہ سب تو میں تمہارے بارے میں کہہ رہا تھا۔
خیر! بندہ رحیم یارخان پہنچ گیا۔ پندرہ بیس دن بعد مصطفی صادق صاحب رحیم یارخان آئے ۔ مجھے کہنے لگے کہ تم نے بی ایڈ کیا ہے ، کسی مضمون میں ایم اے کرلو ، میں تمہیں کسی کالج میں لیکچرر لگوا دوں گا چنانچہ میں نے کتابیں خرید کر ایم اے سیاسیات ( پولیٹیکل سائنس) کی تیاری شروع کردی۔ وفاق میں 1973ء میں چار سو روپے ماہانہ تنخواہ دو کمرے کی رہائش‘ پانی‘ بجلی‘ فون نوکر کی سہولت اور 24 گھنٹے کی نوکری کر لی۔بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی سے ماسٹر بھی کرلیا۔
اس دوران میں ایم پی اے محمد حنیف نارو (پی پی) سے کالج کی لیکچرر شپ بارے کہا تو ان کا جواب تھا : ’’عارف صاحب ! آپ جیسے آزاد منش اخبار نویس اوراوپر سے ڈوگر چند دن میں کالج کے پرنسپل یا کسی دوسرے استاد کی پٹائی کرکے گھر آجائیں گے ، پہلے سوچ لیں ، پھر فیصلہ کریں ۔
یہی بات جنرل اختر عبدالرحمن کے 10 سال تک آئی ایس آئی میں اسٹاف آفیسر بریگیڈئیر احمد ارشاد ترمزی (مصنف ’ حساس ادارے ‘) نے رحیم یارخان میں ملاقات کے دوران میں کہی کہ ’’عارف صاحب اچھا ہوا آپ فوج میں نہیں گئے ورنہ آپ کا کپتان سے پہلے خالد بشیر کی طرح کورٹ مارشل ہو جانا تھا ۔
1987ء میں وفاق سے علیحدگی ہوگئی اور ہم نے اپریل 1989ء میں ڈیلی ’ اباسین ‘ اور ہفت روزہ ’ رضائے تجارت ‘ کا آغاز کرلیا ۔ اس کے بعد تادم تحریر اللہ کے بے شمار شکر کے ساتھ زندگی کا سفر جاری ہے۔ بیٹی نے ایم ایس ای شماریات، ایم بی اے کیا ‘ بیٹے احمد جنید عارف نے ایم بی اے کیا ‘ اس کی اہلیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے فزکس میں گولڈ میڈلسٹ ہیں ۔
پہلے امریکن سکول دبئی میں پڑھاتی تھیں ، آج کل ڈائریکٹر ہیں۔ احمد جنید عارف ابوظہبی کی قومی فرم FIFA میں آفیسر ہیں۔ دوسرے بیٹے حافظ احمد اویس عارف میرے ساتھ اخبار کو دیکھنے کے ساتھ اپنا ذاتی ایڈور ٹائزنگ کا بزنس کرتے ہیں ، ان کی بیگم لاہور میں فوج میں لیفٹیننٹ کمانڈر ہیں جبکہ تیسرے اور سب سے چھوٹے بیٹے حافظ احمد صہیب پہلے یہاں شیخ زید ہسپتال میں دو تین سال دل کے ڈاکٹر رہے۔ آج کل آئرلینڈ میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے بھی سپیشلائزیشن کرلی ہے ان کی بیگم پاکستانی نژاد برطانوی نیشنل ہیں!
خاکسار آج کل ’’رین بسیرا صادق کینال کے فارم ہائوس کے جنگل ، پھول ، پھل ہزاروں کی تعداد میں بقول سابق ڈی جی اطلاعات پنجاب لاہور عطاء اللہ بلوچ یہاں پانچ ہزار ٹن آکسیجن‘ رنگ برنگے پرندے مور سرخاب ہر طرح کا پھل اور پھول ’’ہیون ان ڈیزرٹ‘‘ میں اللہ کے بے شمار شکرانے کے ساتھ شب وروز بسر ہورہے ہیں۔‘‘