عیادت کرنے والی خاتون مریضہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے

عیادت کرنے والے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بنت شیروانی :

میں اکیلی کمرے میں موجود کافی دیر سے چھت پر لگے پنکھے کو ٹکٹکی باندھے دیکھے چلی جارہی تھی جو تیز تیز چل رہا تھا اور ہوا دے رہا تھا ۔ اس کی تیز رفتار کو دیکھ کر دماغ ماضی کی یادوں میں چلا گیا۔

چند ہی سال پہلے کی تو بات تھی جب میں بسکٹس ، چپس وغیرہ منگوا کر رکھتی تھی بالخصوص ایسے موقع پر جب گھر کا کوئی فرد بیمار پڑجاتا تھا ۔ اس فرد کی عیادت کے لیےآنے والوں کا ہجوم ہوا کرتا تھا۔ اور ایسے میں شربت بنا بنا کر اکتا جایا کرتی تھی ۔ اسی لیے بعض اوقات تو میں اکھٹے ہی کولر بھر کر شربت روح افزا بنا لیتی تھی کہ بار بار نہ بنانا پڑے۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ جب وہ روح افزا بھی ختم ہوجاتا ، ایسے میں بعض مہمان جو ساتھ میں مزیدار سے جوسز اور دیگر اشیائے خورونوش گھر کے بیمار فرد کے لیے لایا کرتے تھے تو وہ بھی مہمانوں کے سامنے رکھنا پڑتیں ۔

اس وقت زیادہ عمر نہ تھی، اس لیے بڑی چڑ ہوتی تھی کہ یہ اشیائے خورونوش تو ہمارے لیے ہیں۔ ہم انھیں کیوں مہمانوں کے سامنے رکھیں؟؟؟؟ لیکن امی بڑے پیار سے سمجھاتی تھیں کہ بیٹا ! نکال لو یہ چیزیں۔مہمانوں کی خاطر داری کا بڑا ثواب ہے ، اللہ اور دے گا۔ ( خیال رہے کہ اُس وقت کریم اور اوبر یا آن لائن ڈلیوری جیسی سہولیات نہیں ہوتی تھیں کہ یہاں گھر میں کچھ ختم ہو اور فوراً ہی آن لائن چیز حاضر ہوجائے) لہذا مزید چیزوں کے آنے میں کچھ وقت درکار ہوتا تھا۔

اور ساتھ میں یہ بھی ہوتا کہ ایک فیملی گئی تو دوسری آگئی ، دوسری گئی تو تیسری آگئی۔ مہمانوں کی لائن لگی ہوتی تھی ۔ بعض اوقات تو ایک ساتھ میں دو الگ الگ طرح کے لوگ آجاتے ۔ ایک رشتہ دار، دوسرے ابو کے دوست یا امی کی سہیلی۔ ایسے میں کس کو زیادہ وقت دیا جائے، اس میں تھوڑی دقّت پیش آتی۔

اس وقت اور تھوڑا چڑتی تھی کہ گھر میں کسی کا بیمار پڑنا بھی باقی گھر والوں کو مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ ڈر لگتا تھا کہ گھر کا کوئی فرد بیمار پڑتا ہے تو اتنے عیادت کرنے والے آتے ہیں کہ گھر کے باقی افراد ہی بیمار ہی نہ پڑجائیں۔ بہت سے لوگ تو آتے ہی کہہ دیتے تھے کہ کوئی ٹرے لانے کی ضرورت نہیں۔ ہم بس بیمار کو دیکھنے آئے ہیں لیکن دوسری طرف امی آنکھ کا اشارہ کرتیں، پھر جو بھی ہوتا حاضر کر دیتی ۔

امی نے بچپن سے ہی یہ بات دماغ میں بٹھائی تھی کہ بیٹا ! جو بھی گھر میں آپ سے ملنے آتا ہے وہ اپنا وقت لگا کر آتا ہے لہذا اس کی قدر کرو ۔ اور ساتھ ہی یہ کہ بیٹا عیادت کرنے کے لیے آنے والے تو ثواب حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں کہ بیمار کی عیادت کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ لہذا ان ثواب کمانے والوں کو خالی پیٹ نہ جانے دو۔ لیکن میں پھر بھی چڑتی اور کہتی اُف ! یہ عیادت کرنے کے لیے آنے والے!!!!!

بعض جاننے والیاں تو ہاتھ پکڑ کر وہیں بٹھا لیتیں کہ کچھ لانے کی ضرورت نہیں۔ایسے میں بڑی دلچسپ صورت حال بھی پیدا ہوجاتی کہ اپنا ہاتھ کیسے چھڑاؤں اور امی کی بات کیسے مانوں ؟؟؟؟؟ بہر صورت ایسے میں امی ان کے جاتے وقت خود ہی ان کے منہ میں کچھ نہ کچھ ڈال ہی دیتیں۔

بعض افراد آتے ہی کہتے کہ ہمیں تم لوگوں نے بتایا ہی نہیں کہ تمھارے گھر کا فرد بیمار ہے۔ ہمیں فلاں نے بتایا۔ اس وقت دل چاہتا کہ کہوں آئندہ کوئی ہمارے گھر کا فرد بیمار ہوا تو جیو نیوز پر پٹی چلوا دیا کریں گے یا پھر اخبار کا ضمیمہ نکلوا دیا کریں گے تاکہ سب جاننے والوں کو اطلاع ہوجائے لیکن والدین کی تربیت کہ بڑوں کے آگے بولتے نہیں ۔

ان کی باتیں سُن کر اس وقت تو خاموش ہوجاتی لیکن ان کے جانے کے بعد امی ابو سے ضرور کہتی کہ یہ بھی بھلا کوئ بات ہوئی کہ اب ہم ہر ایک کو فون کر کے بتائیں۔ امی ابو سمجھاتے کہ بیٹا ! وہ اپنی محبت میں کہہ رہے تھے اور میں حیران ہوتی کہ اچھا ! کیا واقعی یہ بھی محبت کا انداز ہے!!!!!

کوئی آکر کہتا کہ کل تک تو اچھے بھلے تھے یہ آج اچانک کیوں بیمار پڑ گۓ؟؟؟ ایسے میں دل کرتا کہوں کہ آپ کی یاد نے ستایا تھا اس لیے بیمار پڑے ہیں کہ اسی بہانے آپ دیکھنے آجائیں گے اور آپ کا دیدار کرنے کا شرف حاصل ہوجائے گا لیکن کہیں ادب و احترام میں کمی نہ آجائے اس ڈر سے صرف یہی کہہ دیتے
” جی ! بس بیماری پہلے سے بتا کر ،دروازہ کھٹکٹا کر،اجازت طلب کر کے نہیں آتی نا اس لئے اچانک بیمار پڑے ہیں۔“

لیکن آج جب کورونا کے دنوں میں خود کو بخار ہوا تو کوئی بھی میرے پاس آنے والا نہ تھا۔ اور اس وقت مجھے وہ سارے مہمان یاد آرہے تھے جن کی میزبانی کرنے سے میں نالاں تھی۔ آج اس تپتے بخار میں خود بھی بیمار تھی لیکن میرے پاس کوئی مہمان نہ تھا ۔ میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہی تھی۔ دل چاہ رہا تھا کہ کسی اپنی کا ہاتھ پکڑوں اور وہ کہے کہ تمھارا بخار جلد اتر جائے گا، تم ٹھیک ہو جاؤگی۔

اتنے میں کوئی اور بھی اپنی آئے اور میں اٹھنے کی کوشش کروں تو وہ کہے ارے بھئی! نہیں اٹھو۔آرام کرو ۔اور پھر وہ بڑے لاڈ سے سوپ کا چمچہ میرے منہ میں ڈالے کہ بس ایک چمچہ پی لو ۔آرام آجائے گا۔ اور میں کہوں کہ نہیں پیا جارہا اور وہ میرا ماتھا چھوتے ہوئے کہے کہ دیکھو تمھارا بخار پھر بڑھ رہا ہے۔ ذارا سا پی لو۔

آج تو ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ تنہا بیمار پڑی تھی اور پھر مجھے اس ” عیادت کرنے کا بڑا ثواب ہے۔“ کی حکمت سمجھ آرہی تھی کہ ہاں آنے والے مہمانوں سے مریض کا بھی دل بہل جایا کرتا ہے تو ساتھ اس فرد کو بھی صحت بڑی نعمت ہے کا احساس ہوجاتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں