قربان انجم :
پہلے یہ پڑھیے
انور جاوید ڈوگر، ایک غیرمعمولی انویسٹی گیٹو رپورٹر کی داستان ( پہلی قسط )
انور جاوید ڈوگر، ایک غیرمعمولی انویسٹی گیٹو رپورٹر کی داستان ( دوسری قسط )
محمد سخی کی انور جاوید ڈوگر سے دوستی عشروں پر محیط تھی، وہ اپنے دوست کی یادیں یوں تازہ کرتے ہیں:
” فلم مکمل وہی ہوتی ہے جس میں دو اہم کردار یعنی ہیرو اور ولن کا ہوتا ہے۔ ہیرو اچھے کام کرکے جبکہ ولن نیگیٹو رول کے ساتھ نمایاں ہوتا ہے۔ انور جاوید ڈوگر نے بیک وقت دونوں کردار ادا کرکے خود کو امر کرلیا ۔ ذاتی زندگی میں ولن ہیرو سے زیادہ اچھے کام کرتا ہے اور نمازی پرہیز گار ہوتا ہے۔ اسی طرح انور جاوید ڈوگر غریب ، نادار ، ضرورت مندوں اور مسکینوں کے لئے کام کرنا اپنا فرض عین سمجھتا تھا۔ ویسے ان کے کئی کارنامے ہیں مگر میں چند ایک کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
انور جاوید ڈوگر سے میری علیک سلیک 1971ء کے آخر میں رحیم یار خان میں ہوئی جو کہ مرتے دم تک قائم رہی۔ درمیان میں کچھ عرصہ میراتبادلہ اسلام آباد ہوگیا تو وہ گیپ آگیا۔
سب سے پہلے رحیم یار خان کا ایک اہم واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ ہم دونوں اڈا گلمرک کے علاقہ میں خبر کی تلاش میں تھے، وہاں نہر کنارے ایک درزی کی دکان تھی جسے ایک غنڈہ تنگ کررہا تھا تو انور جاوید نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ بہرحال پولیس کے ذریعے اسے سمجھا دیا گیا۔ اس طرح مذکورہ دکاندار اپنے کام اور دکان پر محفوظ رہا۔
اس کے بعد ایک اور اہم واقعہ ایک ہسپتال میں پیش آیا۔ ان کے ہمسائے میں ایک ٹرک ڈرائیور تھے جن کی والدہ کو گردے کا عارضہ تھا اور ہسپتال میں کوئی بات سننے کو تیار نہ تھا ۔ یہاں بھی انور جاوید ڈوگر کی کوشش و کاوش ان کا بہتر علاج ممکن ہوگیا۔ اپنی ڈیوٹی میں انتہائی محنت سے کام کرنے والے انور جاوید کی خواہش ہوتی کہ اسے کسی فلاحی کام کا موقع ملے تو وہ جان فشانی سے کام میں لگا رہے۔
انورجاوید ڈوگر کی پوری فیملی خاص طور پر دونوں بڑے بھائی بھی ہر کسی کی مدد کے لئے اپنے آپ کو ہر وقت تیار رکھتے تھے۔ ان کے والدین کو اللہ تعالیٰ جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے جنھوں نے ان کی صحیح تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ انسان اپنے والدین کی دعاﺅں سے ہی ایسے مقام پر پہنچتا ہے۔ انور جاوید پٹواری صاحب کے بیٹے ہوکر بھی کرایہ کے مکان میں رہتے تھے مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد صاحب انتہائی ایمان دار اور فرض شناس تھے، مجال ہے کہ ان سے کوئی غلط کام کروالے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
انور جاوید ڈوگر لاہور میں مختلف اخبارات میں اپنی ڈیوٹی انجام دے چکے تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ کوئی ایسا کام کر جاﺅں جو سب کو یاد رہے اور ساتھ بخشش کا باعث بھی بنے۔ انھیں دفتری امور پر دسترس حاصل تھی۔ لاہور کے علاقہ ساندہ میں رہائش کے دوران میں ان پر پورے محلے کے فلاحی کاموں کا ’ ٹھیکہ لے رکھا تھا‘ والی مثال ان پر صادق آتی تھی۔
ان کے دفتر میں ایک دوست کام کرتے تھے جو کہ مالی طور پر ذرا کمزور تھے۔ ویسے تو تمام اخباری کارکنان کی ایسی ہی کیفیت تھی بہر حال ان کے ذمہ مکان کا تقریباً دو ماہ کا کرایہ جب واجب الادا ہوگیا تو ان کے مالک مکان نے انھیں مکان خالی کرنے کی دھمکی دی۔ نوبت جھگڑے تک جا پہنچی تو انور جاوید ڈوگر نے دوستوں کے تعاون سے ان کے مکان کا کرایہ بھی ادا کیا اور مالک مکان سے بھی معاملہ بہتر کرادیا۔ اس طرح وہ اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ خوش رہنے لگے اور انور جاوید کو دعائیں دیں۔
انور جاوید اپنے کام اور مضامین لکھتے وقت سمجھتے تھے کہ ان کا ہر کام اور مضمون ادھورا ہے ۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ خاص کام کر جائیں جو کہ عاقبت سنوار جائے۔ اسی سلسلے میں 1991ء میں انھوں نے ایک ڈیوٹی کے سلسلے میں ایک مضمون ” جیسا دیس ویسا بھیس “ کے عنوان سے شروع کیا جس میں رقم طراز ہیں کہ میں ایسے حقائق منظرعام پر لانا چاہتا ہوں جن کا علاج اگر دریافت نہ کیا گیا تو برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بزرگوں کی تعلیمات اور کردار کی عظمت کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔
انھوں نے بعض ایسے واقعات کی نشان دہی کی جس کا حل نکالنا ضروری ہے۔ آج کے معاشرے میں لوگ غلط کام کرتے ہوئے ذرا بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ چوری ، ڈکیتی ، بدکاری کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔
انور جاوید ڈوگر نے ایک عرصہ پہلے اس بات کی نشاندہی کی کہ ہمیں اپنے بزرگوں کے مزارات اور درباروں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایک وقت آئے گا جب کریمینل لوگ ان مقدس مقامات میں پناہ لے کر غلط کام کر رہے ہوں گے۔
حال ہی میں ایک ملزم عابد جوکہ موٹر وے واقعہ میں ملوث ہے پولیس کو چکمہ دے کر کہیں غائب ہے اور کافی تلاش کے بعد پولیس کے اعلیٰ حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ ملزم کو اب مزاروں اور درباروں پر تلاش کیا جائے۔ جبکہ یہ بات تو انور جاوید ڈوگر 1991ء میں اپنے مضمون میں لکھ چکے ہیں کہ اعلیٰ حکام کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہاں پر تمام ہوا سخی محمد کے قلم سے لکھا ہوا تذکرہ۔
میرے چھوٹے بھائی کو مرنے کی بھی اتنی جلدی تھی جتنی جینے کی۔ عجلت انسان کو ترتیب و توازن سے محروم کردیتی ہے۔اسی لئے وہ ہر کام وقت سے پہلے کرنا چاہتا ہے۔ وہ انتہا پسند تھا، مجرم ، باغی اور دہشت گرد بھی ٹھہرا۔ اب تو اس دنیا میں نہیں رہا۔ اسے جس کا جی چاہے، جو مرضی ” نام “ دے لے،
بغاوت کے جراثیم بچپن ہی سے موجود تھے ۔ گیارہ ، بارہ سال کا ہوگا۔ پتہ چلا ایک بیوہ نے غربت کے باعث جو یتیم بیٹی خالہ کے حوالے کردی تھی، اسے روز تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اسے ” اغوا “ کرکے چار سو میل دور اس کے گاﺅں میں ماں کے پاس پہنچا کر راتوں رات واپس پہنچ گیا۔ اس عمر میں اس قسم کے دیہی باشندوں کے ماں باپ بس اور ٹرین میں سفر کی اجازت نہیں دیتے۔
اسی عمر میں اس نے اپنے پرجوش ساتھیوں سے مل کر پٹرول بم بنانے کا منصوبہ بنایا۔ مقصد سینماﺅں کو اڑانا تھا تاکہ فحاشی کا مکمل خاتمہ کردیا جائے۔ اگلا قدم فلسطینی مجاہدین سے مل کر بیت المقدس کو فتح کرنا تھا، مخبری ہوگئی اور میں اندھے جوش کی راہ میں حائل ہوگیا۔
ہر ممکن ترغیب کے باوجود اسے سکول کی تعلیم جاری رکھنے پر آمادہ نہ کرسکا تاہم اس نے غریب ماں باپ کو جلد از جلد خوشحال بنانے کے لیے کتابت سیکھنا شروع کردی۔ چند ماہ کی محنت شاقہ کے بعد اخبار میں بطور کاتب ملازمت کرلی۔ اگلے چندماہ میں ایڈیٹنگ اور رپورٹنگ میں بھی اچھی خاصی شدبد حاصل کرلی اور مزید چند ماہ کے بعد وہ بعض اوقات روزنامہ ” وفاق “ رحیم یار خان میں بیک وقت بطور رپورٹر ، سب ایڈیٹر اور کاتب خدمات انجام دیتا رہا۔
لائبریری جانے پر تو مجھے اعتراض نہیں تھا، مگر کبھی کبھار جب پتہ چلتا کہ ” بم ساز گروپ “ کے ارکان سے رابطے جاری ہیں تو پریشانی ہوتی۔ روکتا تو رک جاتا، مگر طبعیت میں استقلال نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ رفتہ رفتہ سرگرمیوں کا دائرہ صحافت سے سیاست تک بڑھانے لگا۔ اسے صحافت تک ہی محدود اور مصروف رکھنے کے لئے رحیم یار خان سے لاہور منتقل کردیاگیا مگر جولانی طبع وسیع سے وسیع تر میدانوں کے لئے سرگرداں رہی ۔
جس طرح اخبارات و جرائد بدلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا ، اسی طرح سیاسی وابستگیوں میں بھی تبدیلی میں بھی غیرمعمولی طور پر برق رفتار ثابت ہوا۔ جب کبھی مختلف پارٹی میسر نہ آئی تو اپنی ہی پارٹی میں فارورڈ بلاک بناکر ہوش پر جوش کے غلبے کے لئے جت گیا۔
اس کے ساتھ المیہ یہ رہا کہ حوالات اور جیل کے اندر اور باہر غیرانسانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ پولیس، جیلر اور ایف ایس ایف کے علاوہ سویلین بھی زدوکوب کرتے رہے۔ اسے ” اپنے “ بھی استعمال کرتے، استعمال کے بعد پٹائی بھی کرتے۔ میں بسا اوقات اسے ”بزعم خود “ راہ راست پر لانے کے لئے مقاطعہ کردیتا، مگر اس دوران بھی وہ تشدد کا شکار ہوتا تو میرے اندر کا کرب چہرے پر نمایاں دیکھ کر گھر والے اس کی مدد اور ” خیریت “ دریافت کرنے پہنچ جاتے۔
اسی طرح ایک روز اس کی بھابھی اس کے گھر گئی۔ اس کے جسم پر نشان اور زخم دیکھ کر پریشان ہوئی اور پوچھا: ” یہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ “…. اسے پہلی بار نڈھال دیکھا گیا۔ کہنے لگا: ” اس بار انھوں نے مجھے بہت مارا ہے۔“
پولیس والے تفتیش کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لئے خطرناک ملزموں کو حوالات میں منجی ( چارپائی) لگاتے ہیں۔ ایک روز مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا گیا تو پژمردہ تھا۔ رات کو منجی لگائی گئی تھی۔ ایک آدھ واقعہ اور ہوگا کہ اسے ” متاثر “ دیکھا گیا، بالعموم وہ سختی برداشت کرلیتا تھا۔
ملک غلام مصطفیٰ کھر کے بطور پر گورنر تقرر کو اس نے عدالت عالیہ میں چیلنج کردیا تھا تو ” سفید پوشوں “ نے اٹھالیا۔ آنکھوں پر پٹی باندھ کر نامعلوم مقام پر لے گئے۔ دن رات جگائے رکھتے۔ شدید گرم اور شدید ٹھنڈا پانی اس کے برہنہ جسم پر انڈیلتے رہے، سگریٹوں سے داغتے رہے۔ منہ میں چونا ڈالتے رہے۔ تسکین و تشفی کے بعد ایک ویران جگہ پھینک گئے۔ گھر پہنچا تو دیکھ کر اذیت ہوئی۔ میں نے کہا :
” انور! تمہارے غائب رہنے کے دوران میں ماں پر کیا گزرتی ہے، کچھ اندازہ کرسکتے ہو؟“
” آپ ٹھیک کہتے ہیں، مگر احساس ایک ماں کا نہیں، سب ماﺅں کا ہونا چاہئے، ممتا کسی ایک ماں کے ساتھ خاص نہیں ۔“
اسی طرح رحیم یار خان میں پی پی پی کے ایک جلسے سے خطاب کے دوران ” قانون شکن “ گفتگو کے بعد اہل قانون نے پکڑ کر جیل پہنچادیا۔ مجھے پی پی کی سیاست سے اختلاف تھا۔ جیل ہی میں تھا کہ اس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی۔ میں نے مشترکہ دوست کے توسط سے پیغام پہنچایا کہ ” اب تم بیٹی کے باپ بن گئے ہو۔ اب تمہاری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔“
جواب میں کہا:” فی الواقع میری سیاسی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ اسی میں نے گھر کہلا بھیجا ہے کہ بیٹی کا نام بے نظیر رکھ دیں۔“
صرف یہ دو باتیں ہیں جنھیں کھینچ تان کر اپنے خلاف گستاخانہ قرار دے سکتا ہوں اور کوئی واقعہ یاد نہیں، جب اس کا رویہ بڑے بھائی کے ادب و احترام کے منافی قرار پاسکتا ہو۔ ساری عمر ” برادر خورد مباشی “ ہی کے مصداق رہا۔ میں اکثر دوستوں سے تذکرے میں اس کی تخفیف کرتا کہ انور غیر ذمہ دار ہی نہیں، غیر متوازن ہی نہیں، ان پڑھ بھی ہے۔ اسے املا تک لکھنا نہیں آتی۔
ایک اورمحترم بھائی غلام قادر چیمہ ایڈووکیٹ ہیں جو تحریک اسلامی کے مخلص اور جرات مند کارکن اور غریب مزدوروں کے وکیل ہیں۔ سچی بات ہے کہ قرن اول کے مسلمانوں کی نشانی ہیں۔ ہم دونوں خالصتاً نجی اور گھریلو معاملات پر بھی دکھ سکھ میں ایک دوسرے کو شریک کرلیا کرتے ہیں۔ ایک روز انور جاوید کا گلہ گیا تو کہنے لگے:
” قربان انجم ! ایک بات یاد رکھو، یہ باغی لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں۔“ چودھری صاحب نے اپنے موقف کی ” تائید “ میں احمد ندیم قاسمی کا ایک شعر سنایا جو آج تو مجھے بہت ہی اچھا لگ رہا ہے۔
حیران ہوں کہ دار سے کیوں بچ گیا ندیم
حالانکہ وہ غریب بلا کا غیورتھا
آج دل کی بات عرض کررہاہوں کہ میں ہمیشہ شاکی رہا مگر جب اس کی ستائش سنتا تو دل ہی دل میں خوش بھی ہوتا تھا۔ میرا ان پڑھ بھائی پڑھے لکھوں میں ڈسکس ہوتا تو میرے دل کے اندر پندار کا صنم خانہ تعمیر ہونے لگتا، جو اب ڈھے گیا۔
اناللہ وانا الیہ راجعون
آﺅ دعا کریں، اللہ تعالیٰ ہمیں اعتماد غیر کے ہرشائبہ سے محفوظ رکھے۔
انور اپنی سرگرمیوں پر اتراتا ، سب سے بڑا کارنامہ ملٹری فارم کے ذمہ داروں سے ٹکر کو قرار دیتا۔ میرے بچوں سے فخر سے مغلوب ہوکر کہتا:
” تمہارے ابو کو یہ بھی ناپسند ہے، حالانکہ اس ٹکر کی مثال نہیں ملتی۔“
میں ٹکراﺅ اور تصادم کے خلاف ہوں۔ سمجھ دار آدمی کا ہر اقدام نتیجہ رخی (Result Oriented) ہوتا ہے، وہ جہاد اور فساد میں فرق سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ اسے علم ہوتا ہے کہ فساد دردنگی ہے۔
اک دن فساد نے مجھے یہ بتادیا
میں آدمی نہیں درندہ ہوں دوستو!
انور جاوید کی زندگی کی آخری مہم مزاعین کی حمایت میں تھی، جس میں بعض حوالوں سے کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ مزارعین کی کثیر تعداد نے تعزیت کی اور خراج عقیدت پیش کیا۔
انجمن مزارعین پنجاب کے چئیرمین انور جاوید ڈوگر کو ” سمجھانے “ اور سبق سکھانے میں ایک افسر نے اس قدر گراں قدر کردار ادا کیا کہ اسے ترقی دے دی گئی۔ اس کے ساتھی بھی یقیناً مراتب بلند ہوں گے۔
میں اس تحریر کے توسط سے اپنے بھائی کے خلاف دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ درج کرانے والے بلند مرتبہ لوگوں سے ایک ” دہشت زدہ “ انسان کی حیثیت سے استفسار کرتا ہوں کہ
اللہ کی عدالت میں پہنچ جانے والے ” ملزم “ کے خلاف انسداد دشہت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمے کی پیروی کے لئے اب ان کی سٹریٹجی کیا ہوگی!