زارا مظہر :
ان سے ملیے یہ سوسن ہیں ، ہمارے معاشرے کی عمومی تصویر ۔۔۔۔ کافی دنوں سے انہیں اپنی طبعیت کچھ ڈھیلی سی محسوس ہو رہی تھی۔ میگرین کا شدید اٹیک تھا ، دو دفعہ ڈانٹ پڑ گئی صاحب سے کہ ڈاکٹر کو وزٹ کر لیں کیوں مرض بڑھانا ہے۔ چڑچڑی سی طبعیت تب بھی مائل نہیں ہوئی ۔
اس نے قہوہ ، یخنی بنا کر پی لیے۔ سیلف میڈکیشن کا مشرقی مستند حق استعمال کرتے ہوئے stemetil کا پتا پھانک لیا لیکن طبیعت نے بھی قسم ہی کھا لی نہ سنبھلنے کی۔ کل بمشکل چکراتے سر کے ساتھ بٹیا کے بال چوٹی میں جکڑے اور وین کے حوالے کیا ۔ پھر تپتی پیشانی اور الجھے سانسوں کے ساتھ صاحب کے کپڑے منتخب کر کے پریس کیے ورنہ تو رات میں ہی کر لیتی ہیں۔ بمشکل آ فس کے لیے روانہ کیا۔
لگ رہا ہے طبیعت مزید بگڑے گی آ ج دکھا ہی لیتی ہوں ورنہ گھر کے تمام ممبر اپنے اپنے محاذوں کا مورچہ کیسے سنبھالیں گے ! عورت ہونا بھی ایک مشن ہے ۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے مسلسل سوچا۔
اسے یاد آ یا چند برس۔۔۔ فقط چند برس پہلے اس کی اپنی کوئی زندگی نہ تھی ، نہ وہ فیس بک پہ تھی ، نہ اس کے پاس ایسی عیاشی کی فرصت تھی۔ ایک کےبعد ایک بچے کی فرمائش۔ الگ الگ طرح کے چار ناشتے اور چار الگ طرح کے لنچ بکس تیار کرنا۔۔۔ میڈ کے ساتھ مل کر بکھرا گھر سمیٹنا ۔۔۔ صفائی ستھرائی اور واشنگ کروانا اور لمبی چوڑی باغبانی بلکہ ملیاری بھی ۔۔۔ یہ واحد شوق تھا جس کی آ بیاری کے لئیے وہ خود کو بھی بھول جاتی ۔۔۔ بچوں کے آ نے تک سب کچھ تیار رکھنا ۔۔۔
انہی دنوں اس کے تھائیرائیڈ کے ساتھ سنجیدہ قسم کے جھگڑے بھی چل رہے تھے ۔۔۔ کبھی مرض غلبہ پا لیتا کبھی وہ پچھاڑ دیتی ۔ اب وہ سوچتی ہے جب کوئی مرض نیا نیا جسم میں داخل ہوتا ہے تو کتنے فساد اٹھاتا ہے ۔ مریض اور گھر والوں کو تگنی کا ناچ نچاتا ہے ۔ مرض کی تشخیص کے بعد دوا کی عمومی مقدار کتنی ہو اگرچہ ڈاکٹر ہی تجویز کرتا ہے لیکن ایک مقدار مریض اپنے جسمانی سہار کے حساب سے خود بھی طے کرتا ہے ۔۔۔
ایسے دائمی امراض میں ذرا سی اونچ نیچ ہوجائے تو مرض مریض کو دھوبی پٹخہ دینے میں ذرا لحاظ نہیں کرتا ۔۔ پھر رفتہ رفتہ مریض اور مرض ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا رہنے اور ایک دوسرے کو اکھاڑنے پچھاڑنے کے بعد تھک کر سمجھوتا کر لیتے ہیں اور ایک ساتھ مل کر ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں ۔ تھائیرائیڈ میں مسئلہ ایسا ہے جیسے قاتلِ ازل نے اپنے دُھّسے کے نیچے موذی ہتھیار چھپا رکھا ہو ۔۔ دوا کی مقدار کی ذرا سی اونچ نیچ غدر مچا دیتی ہے ۔
چار پانچ سال لگ گئے جسم اور دوا کی مقدار کے تال میل میں ۔۔۔ مرض کو بہلائے رکھنا ہے تو تاحیات ہر دو ماہ بعد بلڈ ٹیسٹ اور اس کے مطابق دوا کی مقدار مقدر بن جاتی ہے ۔ وہ وقت بڑی مصروفیت کا تھا میکے سے خوشی غمی کے بلاوے آ تے رہتے وہ پسِ پشت ڈالے رکھتی ابھی تو مرنے کی بھی فرصت نہیں ہے وہ فرائض میں جکڑی سنجیدگی سے سوچتی ۔۔۔ اگر اس عمر میں فرشتہ لینے آ جائے تو اس سے بھی منت و معذرت کرنی پڑے گی ورنہ گھر کا نظام بکھر کر رہ جائے گا ۔ بچے منزلیں کھوٹی کر بیٹھیں گے ۔۔۔ ایک دو اچانک ہونے والی بیہوشیوں سے وہ خوف سے لرز گئی ۔
گھڑی کی سوئیوں پہ نظریں جمائے ٹن ٹن گھنٹیاں بجائے جاتی ۔ بچوں کے سونے جاگنے کے اوقات مقرر کرنا اور عمل پیرا کروانا ۔۔ لکھنے ، پڑھنے اور کھیل کود کے ٹائم ٹیبل ۔۔۔۔ تربیت کے لیے ہر کھانے کی ٹیبل سجانا ، بچوں کی ہم عمروں کے ساتھ گیدرنگز کا انعقاد ، دینی تعلیم کا خاطر خواہ انتظام ، وہ پورا دن گھڑی بنی ٹِک ٹِک کرتی رہتی ۔۔ پیپرز میں تو ایمرجنسی نافذ ہوجاتی جیسے بارڈرز پہ جنگ چھڑی ہو۔ ہر قسم کی گیدرنگز اور پارٹیز پہ پابندی لگ جاتی ۔ دیکھنے ، سننے والے اعتراض کرتے کیوں گھر میں مارشل لاء لگائے رکھتی ہو بچوں کو کھل کر سانس کیوں نہیں لینے دیتی ۔
مرکزی بات سیاق کے حوالے میں چل نکلے تو لکھاری ایک سنہری سے چوکٹھے کی سیڑھی چڑھ جاتا ہے اور تخیل کی کہکشاں سے اپنے من پسند ستارے پر جا کمند ڈالتا ہے قاری کی سباق تک پہنچنے کی آ رزو مچل مچل جاتی ہے ۔
کل صبح اسے ہسپتال نکلنا تھا ۔ بارش کی کِن مِن سردی میں بے پناہ اضافے کا سبب بن گئی تھی اور پھر پہاڑوں کی جانب سے سرد ہواؤں نے موسم کے غضب میں اضافہ کر رکھا تھا ۔۔ لگتا ہے اس بار بڑے دن کے موقعہ پر بابا سانتا کلاز اپنی سفید داڑھی کے گالے ہوا میں بکھیر گیا ہے اس نے دستانے اتارتے ہوئے سوچا ۔ اپنے لئیے ایک کپ چائے چڑھائی تو کھٹ پھٹ سے نازک مزاج بٹیا کی آ نکھ کھل گئی ۔۔۔
” کہیں جا رہی ہیں مام ۔۔۔ “ اس نے کچی نیند کی خمار آ لود بدمزگی سے پوچھا ۔ اثبات میں جواب پا کر بولی ” چائے پراٹھے کا موڈ ہے بنا جائیے گا مجھے آ ج جلدی نکلنا ہے ۔“ اور سر کمبل میں گھسا لیا ۔۔
شکر ہے ابھی ٹیکسی کو کال نہیں کیا تھا پیڑا بیلتے ہوئے اس نےسوچا ۔ گیٹ پہ کوئی تھا اور کال بیل بجائے جا رہا تھا ۔ بھاگم بھاگ دروازہ کھولا چوکیدار تھا سوسن نے الف لیلہ چِھڑتے دیکھ کر کہا بھی کل بات کریں گے لیکن اسے ایمرجنسی تھی ، اسے فارغ کرتے پانچ چھ منٹ مزید لگ گئے ۔۔۔ واپس آ نے تک اطلاعی گھنٹی دوبارہ چیخ پڑی ۔ دودھ لیتے چڑھاتے پانچ منٹ مزید کھسک گئے ۔۔
ملازمہ کو پہلے ہی کال کر کے کہہ چکی تھی ڈھائی بجے کے بعد آ نا ۔۔۔ لیکن وہ بھی اپنے وقت پر آ گئی ۔۔۔
” باجی ! مجھے گھر جلدی جانا ہے ، اوپر اوپر سے کام کروا لو ورنہ ناغہ ہو جائے گا ۔۔۔۔ “
بار بار کی گھنٹیوں سے منجھلے صاحب زادے بھی جاگ گئے ۔ کہیں جا رہی ہیں انہوں نے خواب گاہ سے ایک غنودہ سوال لاؤنج میں دوڑایا۔
” کل یونیورسٹی سے واپسی پہ میرا پاؤں رپٹ گیا تھا جینز ، جیکٹ پر کیچڑ لگ گئی تھی ۔
کیسے اترے گی ؟
پانی سے ؟ ۔۔۔ “
اطلاع اور سوال شانہ بشانہ تھے ۔
لوجی کھنگال کے نکالنا بھی پڑے گا اور کیسا برفیلا پانی ہے اسے جھرجھری آ گئی ۔۔۔ گرم بستر سے نکلنے اور تھوڑا چلنے پھرنے سے جسم کا درجۂ حرارت کچھ نارمل ہو رہا تھا ۔۔ سو جُت گئی کیچڑ کی مٹی سوکھ گئی تو مزید عذاب ڈالے گی اور کپڑے پانی میں پٹخ پٹخ کر نتھار لئیے ۔ چار چھ اور بھی دھونے والے کپڑے نکل آ ئے اس نے سب ڈال کے مشین کا بٹن آ ن کر دیا۔
بارہ سے اوپر کا وقت ہو رہا تھا چھوٹی کی لنچ میں زنگر برگر والی فرمائش یاد آ گئی ۔۔۔ ویسے بھی اب اگر نکلتی تو ڈیڑھ گھنٹے آ نے جانے کے نکال کر باقی وقت نہیں بچ رہا تھا کہ باری کا انتظار کرتے ہوئے ڈاکٹر کو وزٹ کیا جاتا ۔۔۔۔ عزرائیل آ ئے گا تو اسے بھی دستک کے بعد تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا ۔ اے بھیا ! اللہ کے واسطے ذرا رُکیو میرے دنیا داری کے کچھ ضروری جھگڑے نمٹانے والے رہتے ہیں ، آ ل اولاد کے لئیے آ خری پراٹھا پکا لوں ورنہ ایک وقت من پسند ناشتہ نہیں کر سکے گی ۔ آ خری جوڑا دھو لوں بیٹے کے کپڑوں میں مٹی سوکھ جائے گی ۔ میاں صاحب کی جرابوں کی جوڑیاں ملا دوں بیچارے بعد از میری وفات ڈھنگ سے سوگ بھی نہ منا سکیں گے ۔ لوگ باگ طعنے دیتے پھریں گے کیسی پھوہڑ بی بی کا شوہر ہے ۔ ایک دو اور ضروری کھاتے کلئیر کر لوں ۔
سوسن نے چپکے سے اپنے ہتھیار گراتے ہوئے پسپائی اختیار کر لی ۔۔۔ کیوں نہ ڈاکٹر کی عیاشی آ ئیندہ کبھی بیماری کے حملہ آور ہونے کی صورت میں حاصل کر لی جائے ۔ اب طبیعت کچھ سنبھل سی گئی ہے، ذمہ داریوں کے بیچ میں اس نے خود کو توانا محسوس کرتے ہوئے سوچا ۔۔۔
اسے معلوم تھا اس کے جیسی ہزاروں سوسنیں ہر روز ایسی ہی قربانی دیتی ہیں
تب ہی تو گھریلو نظام خوش اسلوبی سے چل رہا ہے ۔
جس دن سوسن نے اپنے لئیے جینا شروع کر دیا معاشرتی نظام تلپٹ ہو جائے گا۔