حمیرا ریاست علی رندھاوا، اردو کالم نگار

یہاں سے وہاں تک

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

کھلی بات / حمیرا ریاست علی رندھاوا :

بس حکومت میں آنے کی دیر ہوتی ہے ، سیاستدان قواعد و ضوابط کے مجموعہ یعنی آئین کو بھی اپنی مرضی کے قوانین سے سجا لیتے ہیں۔ صدر پاکستان کی عمر 45 سال ہونی چاہئیے اور زیادہ سے زیادہ ہڑپہ سے قدیم عمر کا صدر بھی چلے گا چاہے وہ عقل سے بھی چلا ہوا ہو ۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص اگر 35 سال کا ہو جائے تو اسے نوکری نہیں ملتی، اگر مل بھی جائے تو 20 سال کا تجربہ مانگ لیا جاتا ہے مگر حکومت میں آپ ناتجربہ کار بھی چل سکتے ہیں، چاہے وہ دانتوں کی مرمت ہی کیوں نہ کرتا ہو ، کرنی تو مرمت ہی ہوتی ہے ناں عوام کی، کیونکہ اس نے چُپ رہ کر اپنے دانت بچانے ہوتے ہیں اور عوام کے دانت کھٹے کرنے ہوتے ہیں۔

پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک ایوانِ بالا جو بالا ہونے کی وجہ سے مدھو بالا بنا رہتا ہے اور دوسرا ایوانِ زیریں جو گالیوں کی وجہ سے زیریں رہتا ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی مل کر قانون بناتے ہیں جن کا اطلاق صرف عوام پر ہی ہوتا ہے۔ ورنہ سیاست دانوں کے قانونی مشیر تو اُن کو قانونی مسائل سے مکھن میں بال کی طرح نکال لیتے ہیں۔ اس لئے قانون کی بالا دستی کیلئے قانون کو صرف عوام پر نافذ کر دیا جاتا ہے۔

عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ممبران الیکشن کے دنوں میں دلبر دلبر بنے ہوتے ہیں مگر کامیابی کے بعد یہ ” بوہے پر چِک تان لیتے ہیں “ اور عوام بیچارے چپ کر کے ” توں دَڑ وَٹ لے نہ کھول خلاصہ سیاست دا، چمڑی لَتھ جاوے گی“ کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں۔

کابینہ میں تمام وفاقی وزراء شامل ہوتے ہیں، یہ مختلف محکموں کے انچارج ہوتے ہیں۔ محکمے کے معاملات سرکاری ملازم جو بطور سیکرٹری کام کرتا ہے وہ دیکھتا ہے اور وزیروں کی موجیں ہوتی ہیں۔

پاکستان میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔ وفاق میں قبائلی علاقے، وفاقی دارالحکومت اور پانچوں صوبے شامل ہیں۔ آئین کی رو سے پاکستان کی قومی زبان اردو ہے مگر کمال یہ ہے کہ آئین انگریزی میں لکھا ہوا ہے اسی لئے تو اکثر سیاستدان اس کی تعریف تک بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ آئین کیوں بنا، اس میں کیا لکھا ہے، اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اور کسی ریاست کیلئے یہ کتنا ضروری ہے، اس سے ہماری عوام کی اکثریت ناواقف ہے۔

ملک کے عوام کو نوکری کیلئے متعلقہ مضمون میں ڈگری ہولڈر ہونا چاہئیے مگر سیاستدان بننے کیلئے کسی مضمون یا ڈگری کی ضرورت نہیں۔ اس کیلئے گونگی بدمعاشی، اثرو رسوخ اور قومی خزانہ خالی کرنے ، انصاف کا خون بہتر انداز میں کرنے اور عوام کی ایسی کی تیسی کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئیے۔

ہمارے ملک میں وزیراعظم انتظامی امور کی دیکھ بھال کرتا ہے اور وفاقی سیکرٹری متعلقہ ادارے کے وزیر کی نگرانی میں کام کرتا ہے مگر ملک میں عوام پھر بھی روتے ہیں کہ ہمارا یہ کام نہیں ہوا، ہمارا وہ کام نہیں ہوا۔ بندہ کیا کرے، عوام کی بات پر یقین کرے یا سیاستدانوں کی۔

”چھڈو جی! سانوں کیہہ۔ اسیں کیہڑا الیکشن لڑنا ایں، اَساں رہنا تے عوام ای ہے ، تے گلے شکوے کرن نالوں چُپ ای بہتر اے“ ورنہ آپ جانتے تو ہیں۔۔۔

نوٹ (اس کالم کا بنیادی مقصد پاکستان میں سیاسی ڈھانچے کا تعارف تھا تاکہ عام آدمی تک معلومات پہنچ سکیں باقی قلم سچ لکھنے کیلئے پھسل ہی جاتا ہے کیونکہ میں جھوٹ نہیں لکھتی۔ )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں