ثاقب محمود عباسی :
پاکستان کے مذہبی طبقات کی ناچ ناچ کر ٹانگیں درد کرنا شروع ہو گئی ہیں ۔ وجہ اس کی امریکی ایوان نمائندگان پہ ٹرمپ کے حامیوں کا دھاوا ہے ۔
فیس بک وال ” تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی “ اور ” ایک دن آئے گا جب سرمایہ دارانہ جمہوریت کو لندن اور نیویارک میں جگہ نہ ملے گی “ جیسے شعروں اور اقتباسات سے بھری ہوئی ہے ۔
انتہا کی جذباتی قوم جو دشمنوں کے خود بخود تباہ و برباد ہونے کے خواب دن رات دیکھتی رہتی ہے۔ اس قوم کے حصے میں شعلہ بیان مگر نہایت سطحی اور جذباتی قیادتیں آئی ہیں ۔ مذہبی طبقات خاص کر جنہیں ہر محفل اور مجلس میں انقلاب آنے کی نوید اور امریکہ کی تباہی کے مژدے سنائے جاتے ہیں ۔ برسوں اس طرح کی بے سروپا تقریریں اور کہانیاں ہر مکتبہ فکر سے سننے کو ملیں۔
ایک چیز جو بہت قریب سے دیکھی وہ سطحیت اور جذباتی پن تھا جبکہ معقولیت ‘ دلیل ‘ علمی گہرائی اور سائنٹیفک اپرووچ سے دوردور تک کوئی لگائو نہ تھا اور نہ ہے۔ ان مجلسوں اور محفلوں میں معقولیت کی بات کرنے والے کو کمزور ایمان والا گردانا جاتاہے۔
امریکہ کی تباہی وبربادی کے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے قصے سنانے والے اکثر مقررین کو امریکی تاریخ ‘ نظام اور سیاست کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا۔ وہ تو بس اپنی خواہشوں کو مستقبل کی نوید بناتے ہیں مگر خواہشوں سے کب پھل گرا کرتے ہیں جھولی میں ؟
تو احباب گزارش یہ ہے کہ امریکہ سے میں ذرا مرعوب نہیں ہوں البتہ ان کی تاریخ ‘ آئین ‘ سیاسی نظام اور ٹیکنالوجی و معیشت پہ دسترس کا دلدادہ ہوں ۔ ہمارے پاس ان سے سیکھنے کو بہت کچھ موجود ہے۔ بجائے ان کے اچھے پہلوئوں سے سیکھنے کے ایک چھوٹے سے واقعے پہ بغلیں بجانا چہ معنی دارد؟
اللہ کرشمہ ساز ہے جو چاہے کرسکتا ہے ۔ ہمارے ہاں نجومی بھی بہت ہیں جو ہر پانچ سال بعد دنیا کی تباہی کی پیش گوئی کرتے پائے جاتے ہیں ۔ میری شعوری بیس سال میں تو دنیا بہرحال تباہ نہیں ہوئی ‘ آگے کا معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
باریک بینی سے ‘ علمی و سائنسی انداز کا معروضی و منطقی تجزیہ بتاتا ہے کہ ابھی اگلے پچاس سال تک امریکہ کو کوئی دوسرا ملک Replace بھی نہیں کرسکتا ۔ چائنا جتنی مرضی ترقی کرجائے امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
بات لمبی ہورہی ہے ۔ میرا مقصد مذہبی جماعتوں کی قیادتوں سے خصوصاً اور کارکنوں سے عموماً یہ گزارش کرنا تھی کہ خدارا پڑھنے کی عادت ڈالیں ۔ خود نہیں پڑھ سکتے تو مختلف شعبوں کے ماہرین کے ساتھ بیٹھنا اور سیکھنا شروع کردیں ۔ اگر مغربی علوم وفنون سے واقفیت حاصل نہیں کرسکتے تو اپنا لٹریچر ہی ٹھیک سے پڑھ لیں ۔۔۔۔
جذباتیت اور تقریروں سے واللہ کوئی قوم بنتی ہے نا ملک بنتا ہے ۔ اس کارگاہ ہستی کے کچھ قوانین ہیں جو کسی کے لیے نہیں تبدیل ہوتے ۔ جو ان قوانین کو سمجھ کران پہ عمل کریں گے وہی دنیا پہ عروج اور حکمرانی کرسکیں گے۔
اور ہاں ! شاخ نازک والے شعر کے ساتھ اور شعر بھی ہے کہ ” الٹ دیا تھا جس نے روما کی سلطنت کو “ آپ کے پاس وہ شیر کہیں ہے ؟ پاکستان میں تو عمران خان نیازی کی حکومت ہے ‘ روما کی سلطنت تو الٹنے سے رہا ‘ (میرٕے منہ میں خاک ) سلطنت خداداد بھی نہ گنوادے ۔۔ اور وہ نیویارک و لندن والی پیش گوئی کے پیچھے بھی ایک معروضی اور منطقی تحریر ہے اور وہ طریقہ کار و ترتیب ہے جس پہ عمل کرکے ہی مغربی تہذیب کو لرزہ براندام کیا جاسکتاہے۔
جو لوگ کچھ عرصہ پہلےایک امریکی شہری کے مارے جانے کو امریکی تباہی سے منسوب کررہے تھے انہیں خبر ہو کہ ٹرمپ کی ہار کی ایک بڑی وجہ وہ تحریک تھی ۔۔ وہاں اگرایک بے وقوف شخص صدر بن گیا تو امریکی عوام نے اسے اگلی ٹرم کے لیے مسترد بھی کردیا ۔ امریکہ عدالت ‘ ایوانِ نماٸندگان ‘ حتیٰ کہ خود ری پبلکن پارٹی اور ٹرمپ کے ناٸب صدر نے جو بائیڈن کی جیت کی توثیق کی ہے ۔ نا وہاں جج خریدے گئے ‘ نا وہاں ہارس ٹریڈنگ کی گئی اور نا ہی بندوق کے زور پہ ووٹ چرا کر جعلی تبدیلی عوام پر ٹھونسی گئی ۔۔
موجودہ واقعہ امریکی تاریخ میں ایک سیاہ باب بن کر گم ہوجائےگا۔
ہمیں امریکہ و یورپ کی تباہی کی فکر سے زیادہ اپنی تعمیر و ترقی کی فکر کرنا ہوگی ۔ عروج و سربلندی کبھی دوسری قوموں کی غلطیوں پہ خوش ہونے سے نہیں بلکہ اپنی خوبیوں کو نکھارنے اور غلطیوں سےسبق سیکھنے سےملتی ہے۔