سرکاری یونیورسٹیوں نے کتنے سائنٹسٹ،ٹیکنالوجسٹ اور ماہرین پیدا کیے؟ اہم سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مفتی منیب الرحمن ……..
بعض حضرات کے نزدیک مولوی نامی مخلوق ساری سماجی ‘معاشی ‘ سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ‘ اگر کسی طرح خاکم بدہن اگر یہ مولوی نیست ونابود کردیے جائیں تو ایک ہی جَست میں پاکستان دنیا میں ہر شعبۂ حیات میں سرِ فہرست آجائے اور دنیا ہماری بلندیوں کو دیکھ دیکھ کر کڑھتی رہے ‘ ایک اوربزرگ کے نزدیک ہر دکان ‘ہوٹل‘ چوک اور موڑ پر جو اُن کا پسندیدہ مشروب دستیاب نہیں ہے ‘تو اس کے ذمے دار بھی مولوی ‘ مدرسے اور رویت ہلال کمیٹی ہے ‘ وہ بھی وقفے وقفے سے کوستے رہتے ہیں ‘ ان سب حضرات کے روحانی کرب کا ہمیں اندازہ ہے ‘ ان سے ہمیں ہمدردی ہے ‘ لیکن ان سے معذرت کہ ان کے دکھوں کا مداوا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔

آئے دن کوئی نہ کوئی صاحبِ علم وفضل لکھتا رہتا ہے کہ ماضی میں مدارس سے مختلف علوم وفنون ‘ طبیعیات ‘ کیمیا‘ ریاضی‘ فلکیات ‘حیوانیات ‘نباتات ‘الجبرا‘ فلسفہ ‘ طب کے مختلف شعبہ جات ‘ تاریخ الغرض تمام سماجی ‘ سائنسی اور فنی علوم کے ماہرین پیدا ہوتے تھے جیسے : ابونصر فارابی‘ ابوعلی حسین بن عبداللہ بن سینا ‘ ابوعلی الحسن بن الہیثم ‘ جابر بن حیان‘ الاصمعی‘ الخوارزمی‘ ابوریحان البیرونی‘ ابن خلدون وغیرہم‘ اب یہ مدرسے بانجھ ہوچکے ہیں ۔ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ مسلمانوں کے عروج اور اقتدار کا دور تھا ‘ ریاست کا نظامِ تعلیم ایک تھا‘ بنیادی دینی تعلیم ہر ایک کے لیے لازمی تھی ‘ ایک خاص سطح تک علم حاصل کرنے کے بعد سب اپنی پسند کے علمی شعبوں میں تخصّص کی طرف چلے جاتے تھے اور اس میں مرتبۂ کمال حاصل کرتے تھے ‘ مغرب نے جو جدید سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ ارضیات‘ بحریات‘ فلکیات‘ حیوانیات ‘نباتات میں ترقی حاصل کی ‘ انہوں نے انہی کے علمی آثار کی خوشہ چینی کی اور ہر شعبے میں جہاں تک ہمارے اکابر نے اپنے نشانات ثبت کیے تھے ‘ اُسی کا مغربی زبانوں میں ترجمہ کیا اور پھر آگے بڑھایا‘ جس طرح بنوعباس کے زمانے میں جب اسلام کو یونانی فلسفے سے واسطہ پڑا تو اس وقت کے ہمارے اکابر نے اُسے عربی میں ترجمہ کیا اور پھر اُسی کے اصولوں کی روشنی میں اس کا رد کیا ‘ امام رازی اور امام غزالی کا نام آج بھی آفتابِ نصف النہار کی طرح روشن ہے ‘اسی طرح علم الکلام میں امام ابومنصور ماتریدی اور امام ابوالحسن الاشعری کے اسمائے گرامی زندہ وتابندہ ہیں ‘ سعدی ورومی سے اہلِ مغرب بھی آشنا ہیں‘ اسی لیے علامہ اقبالؔ نے کہا تھا:
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار‘ وہ کردار‘ تو ثابت وہ سیارا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں‘ تو دل ہوتا ہے سیپارا

دینی مدارس وجامعات نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف ماہرین یا طبیعیات‘ ریاضی ‘ کیمیا ‘ طب ‘ حیوانیات ‘ نباتات اور فلکیات وارضیات اوربحریات کے ماہرین پیدا کرنے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا ‘ دینی مدارس وجامعات کا کام دین کے علماء وفقہاء اور متخصصین پیدا کرنا ہے اور اسی کے بارے میں سوال کیا جانا چاہیے۔ آج کل سپیشلائزیشن کا دور ہے ‘ عصری درسگاہوں میں بھی ہمارے ہاں میٹرک سے فیکلٹی جدا ہوجاتی ہے ‘ مختلف سائنسی ‘طب ‘ پری میڈیکل ‘ پری انجینئرنگ ‘ آئی ٹی ‘ معاشیات ‘ سماجیات‘ علم البشر‘ حیوانیات‘ نباتات‘ ارضیات‘ فلکیات‘ ادبیات وتاریخ‘ وغیرہ ۔ اُردو ‘عربی‘ تاریخ‘ سماجیات ‘ معاشیات کی پی ایچ ڈی سے کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ تمام قسم کے سائنسی وفنی علوم کا ماہر کیوں نہیں ہے ‘ یہ مشقِ ناز دینی مدارس وجامعات سے اپنی نفرت کے اظہار کے لیے ان پر کی جاتی ہے‘ انگریزوں نے برصغیر پاک وہند پر اپنی قریباً سوسالہ حکمرانی میں غلامانہ ذہنیت پیدا کی‘مذہبی علامات واعزازات کو حقارت کی علامت کے طور پر پیش کیا ۔ سب کو پتا ہے کہ خلیفہ ‘ قریشی‘ انصاری اور سلیمانی کے نام مختلف پیشوں کو دیے گئے‘ یہ سب ایک فکری منصوبہ بندی کے تحت تھا۔

دینی مدارس وجامعات کا غم تو سب کو بے چین کیے جارہا ہے ‘ جن پر قومی خزانے سے ایک پائی بھی خرچ نہیں ہورہی ‘لیکن یونیورسٹی کی سطح تک جن تعلیمی اداروں پر قومی خزانے سے کھربوں بلکہ پدموں خرچ ہوچکا ہے‘ ان کی خبر کوئی نہیں لے رہا کہ انہوں نے عالمی سطح کے سائنٹسٹ ‘ٹیکنالوجسٹ اور مختلف شعبوں کے کتنے ماہرین پیدا کیے جن کے کھاتے میں ایجادات ہیں یا عالمی حوالے ہیں۔ الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! دینی اداروں نے ایسے مفسر‘ محدث اور فقیہ ضرور پیدا کیے ہیں ‘جن پر عالمی یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی ہورہا ہے۔ سو آپ کو کوئی مولوی نظر آجائے منہ دوسری طرف پھیر لیا کیجیے‘خواہ مخواہ کڑھنے سے کیا فائدہ!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں