قربان انجم :
پہلے یہ پڑھیے
انور جاوید ڈوگر، ایک غیرمعمولی انویسٹی گیٹو رپورٹر کی داستان ( پہلی قسط )
انور جاوید ڈوگر کے انتقال پر ممتاز صحافی ، کالم نگار اور مرحوم کے ایک عرصہ تک کے رفیق کار تنویرقیصر شاہد نے ایک کالم لکھا جو انور جاوید ڈوگر کی شخصیت کے بہت سے پہلوﺅں کا احاطہ کرتا ہے۔ تنویر قیصر شاہد لکھتے ہیں:
”شہادت “ اور ” جہاد “ دو ایسے الفاظ ہیں جو پاکستان میں متنازعہ بنا دیے گئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں بھٹو صاحب پھانسی پا کر اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ” شہادت “ کے لفظ کی نئے انداز سے تعبیریں سامنے آئیں۔ بھٹو کی موت کے تقریباً نو سال بعد بہاولپور سے اسلام آباد آتے ہوئے جنرل ضیا الحق کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا اور جنرل ضیا موت سے ہمکنار ہوئے تو ” شہادت “ کے لفظ کی ایک نئے انداز سے تفسیریں کی گئیں۔ بھٹو اور جنرل ضیاءکے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان لفظ ” شہادت “ کو فٹ بال بنا دیا گیا حالانکہ اس لفظ کو اسلامی تاریخ اور اسلامی دنیا میں ایک خاص مقام حاصل رہا۔
وانا میں نیک محمد کو ایک میزائل حملے میں مارا گیا ہے تو ایک بار پھر ” شہادت “ کے لفظ پر طبع آزمائی کی گئی۔ مارنے والے نیک محمد کو ” دہشت گرد“ اور ” دہشت گردوں “ کا آلہ کار کہہ رہے تھے اور نیک محمد کی مخصوص مزاحمت کو عین اسلام سمجھنے والے نیک محمد کی موت کو ” شہادت “ سے معنون قرار دے رہے ہیں۔
اسی طرح ” جہاد“ کے لفظ سے اپنے اپنے مفاد کے معنی کشید کرکے اپنا اپنا پرچم لہرایا جارہا ہے ۔ ” جہاد “ کی ایک تعبیر وہ تھی جس کے مبلغ نیک محمد اور مفتی نظام الدین شامزئی تھے اور ” جہاد “ کے ایک معنی وہ ہیں جس کے مفسر جنرل پرویز مشرف تھے۔ جنرل صاحب لفظ ” جہاد “ کی اپنی تفسیر کو ” جہاد اکبر “ بھی کہتے ہیں جسے سرکاری چھتری تلے پاکستان میں فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔
اور ایک جہاد وہ ہے جو اخبار نویسی کی دنیا میں رہ کر میرے دوست اور بھائی انور جاوید ڈوگر کر رہے تھے، وہ انتہائی تناﺅ اور کسمپرسی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ میں مسلسل سوچتا رہا کہ اتنے بہادر اور منفرد شخص کی موت پر کیا لکھوں؟ انھوں نے تحقیقی صحافت اور جرات کے نام پر اتنے بکھیڑے پال رکھے تھے کہ جس کسی نے ان کی موت کا سنا ، یہی کہا: ڈوگر صاحب کو گولی لگی تھی؟ کسی نے زہر دے دیا؟
میری ان سے ملاقات اس وقت ہوئی ، جب وہ ایک ممتاز ہفت روزہ میں کام کرتے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ بہت سے اخبارات و جرائد میں کام کرچکے تھے مگر باقاعدہ واقفیت اسی ہفت روزہ میں ہوئی۔ روزنامہ ” پاکستان “ جناب مجیب الرحمن شامی کی زیر ادارت آیا تو وہ اس سے منسلک ہوگئے۔ ان کی تحقیقی رپورٹنگ سے بہت سے لوگ ناراض ہوئے اور بہت سوں نے اس سے فائدے بھی اٹھائے۔
” پاکستان “ کے سنڈے میگزین کے لئے انھوں نے لاہور کے ایک مشہور قتل ( ٹوانہ کیس، جس میں ٹمی سکندر کو ملوث کیا گیا تھا) کے بارے میں جو شاندار رپورٹ لکھی ، وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ گوجرانوالہ کے نزدیک ایمن آباد کے قصبے میں آباد ایک ” سید بادشاہ “ پیر کو بے نقاب کرکے انھوں نے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔ یہ انور جاوید ڈوگر کی ہمتوں اور جراتوں کا کمال تھا کہ انھوں نے کئی ماہ کی تفتیش اور تحقیق کے بعد ثابت کیا کہ ایمن آباد کا یہ پیر جعلسازی اور فراڈ کا بادشاہ ہے اور یہ کہ یہ شخص مسلمان بھی نہیں بلکہ عیسائی ہے۔
”پاکستان“ سے وابستگی کے دوران انھوں نے حقیقی معنوں میں قلمی اور صحافتی جہاد کے کئی جھنڈے گاڑے۔ داتا گنج بخش ؒ کے مزار شریف کے احاطے اور آس پاس راتوں کی تاریکیوں اور دن کے اجالوں میں جو کھیل کھیلے جاتے ہیں، انور جاوید ڈوگر نے ملنگوں کا بھیس بدل کر جس جرات اور بے باکی سے انھیں طشت از بام کیا، حقیقی معنوں میں اسے انویسٹی گیشن جرنلزم کے ایک زریں باب کی حیثیت میں یاد رکھا جائے گا۔ مذکورہ مزار اقدس کی اتنظامیہ کے کئی کرداروں کو انھوں نے بے نقاب کرکے جس انداز میں کیفر کردار تک پہنچایا، اسے ہم کیسے فراموش کرسکتے ہیں؟ یہ کہانی بعدازاں انھوں نے کئی قسطوں میں روزنامہ ” یلغار “ میں بھی لکھی، جسے بہت دلچسپی سے پڑھا گیا۔
آج لاہور کے تھیٹروں میں آرٹ کے نام پر جو اچھل کود ہو رہی ہے اور حکومتی ہاتھ جس انداز میں ان عناصر کی گوشمالی کرتا ہوا ( بعض اوقات ) نظر آتا ہے، اس احتساب کا آغاز انور جاوید ڈوگر نے کیا تھا۔ انھوں نے فیصل آباد کے ایک تھیٹر میں ایک مشہور اداکارہ کی سرگرمیوں کے حوالے سے جو شاندار رپورٹ لکھی اور مذکورہ اداکارہ کا جو یادگار انٹرویو کیا، اس کی اشاعت کے بعد ہی تھیٹروں میں رقص کرنے والی اداکاراﺅں اور ذو معنی جملے ادا کرنے والے ” فنکاروں “ کے خلاف حکومتی ہاتھ حرکت میں آیا تھا۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مشہور آرٹسٹ سہیل احمد نے جیو ٹی وی کے پروگرام” 50منٹ “ میں بتایا ” صحافی انور جاوید ڈوگر کو سٹیج کی ایک اداکارہ نے انٹرویو کے دوران کہا کہ میں ایک لاکھ روپے کی جوتی پہنتی ہوں۔ ایسی اداکاراﺅں سے پوچھا جائے کہ وہ اتنا روپیہ کہاں سے اور کیسے کماتی اور حکومت کے خزانے میں ٹیکس کتنا جمع کراتی ہیں؟“ ( واضح رہے کہ مشہور اداکارہ ایک باکسر کی دوست رہی ہیں اور پھر بعض لوگوں نے اس کا سر اور بھنویں استرے سے مونڈ ڈالی تھیں۔ اب یہ خاتون کینیڈا کی شہری بھی ہیں اور آج کل کہتی پھر رہی ہیں ” میں لڑکی نہیں رہی “ )
جناب مجیب الرحمن شامی نے 2000ءمیں فیصلہ کیا تھا کہ ” پاکستان “ کے رنگین ایڈیشنوں میں ایک پاکستان کی اقلیتوں کے لئے مختص کیا جانا چاہیے۔ اس فیصلے کے مطابق پنجاب کی مسیحی آبادی کے مسائل اور ان کے حل کے لئے ایک نئے ایڈیشن کا آغاز کیا گیا اور اس کی جملہ ذمہ داریاں انور جاوید ڈوگر کو تفویض کی گئیں۔ مجھے فخر ہے کہ اس کوشش میں مجھے ان کی رفاقت رہی اور اشاعت سے قبل ان کا فراہم کردہ میٹریل مجھے دیکھنے کا اعزاز حاصل رہا۔
انھوں نے جس احسن انداز، شائستگی اور محنت سے مسیحی برادری کے مسائل کو اجاگر کیا ، اس کی تعریف و تحسین لاہور کے لاٹ پادری نے برسرمجلس کی۔ یہ تحسین ” پاکستان “ کا کریڈٹ بھی ہے اور انور جاوید ڈوگر کے قلم کو سلام بھی!! وہ سلیس اردو لکھتے اور اپنا مطمع نظر واضح کرتے چلے جاتے۔ ان کی تحریر میں کوئی الجھاﺅ ہوتا نہ انھیں دانشوری بگھارنے کا کوئی شوق تھا۔ وہ ایک مثالی رپورٹر کی طرح حقائق اور مشاہدات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرتے چلے جاتے۔
صحافت ، صحافتی برادری اور سماج کے بہت سے افراد سے ان کی دشمنیاں چل رہی تھیں۔ ان کے بہت سے ہم پیشہ ان سے حسد بھی کرتے تھے۔ ان کے کسی اخبار یا رسالے میں تادیر نہ ٹکنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ حقیقت میں صحافتی دنیا کا وہ ایک آزاد اور من مونجی پنچھی تھا۔ کوئی بات دل اور منہ میں آجاتی تو انور جاوید ڈوگر نہ اپنی زبان کو روکتے اور نہ ہی اپنے قلم پر مصلحتوں کے پہرے بٹھاتے۔ انھیں اس روش اور رویے کی وجہ سے بہت نقصان بھی اٹھانا پڑے، مگر وہ باز نہ آئے اور باز نہ آنا ان کی صحافتی جبلت میں شامل تھا۔
اس قسم کا ایک ” سانحہ “ اس وقت سامنے آیا جب وہ پنجاب کے ایک گورنر جنرل غلام جیلانی خان سے متصادم ہوئے۔ انھیں اس ” بدتمیزی“ کی سزا بھی ملی اور جزا بھی۔ سزا اس طرح کی جیل بھگتنا پڑی اور جزا ان معنوں میں کہ جنرل جیلانی نے اس بانکے اور سجیلے اخبار نویس کو بعدازاں ایک چھوٹا سا اڑھائی مرلے کا فلیٹ الاٹ کردیا کہ اس کی شوریدگی میں کمی تو نہیں آئے گی ، کم از کم اس کے بچے تو ایک چھت تلے زندگی گزارنے کے قابل رہیں۔ انور جاوید ڈوگر کی بس یہی جائیداد رہی، اس میں ایک ” اینٹ “ اور مزید ایک مرلے کا اضافہ نہ ہوسکا۔
وہ انتہائی لاپروا شخص تھا، اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ لوگ اسے کس طرح یاد کرتے ہیں، وہ اپنی ہٹ اورقطع کا منفرد اخبار نویس تھا جس نے اپنے راستوں کا انتخاب خود کیا۔ انور جاوید ڈوگر کئی مقدمات میں کئی بار جیلوں میں گیا۔ ان سختیوں اور جبر نے اسے منفرد انداز میں مضبوط بنادیا تھا۔ اب سردی، گرمی، معاشی تنگ دستی اور خوشحالی اس کے چہرے کو بدلنے پر قادر نہ تھیں۔
اس نے آخری معرکہ مقتدر قوتوں کے خلاف لڑا۔ اوکاڑہ کی کچھ زمینوں پر یہ قوتیں گزشتہ کئی برسوں سے قابض ہیں ۔ مزارعین اور ان قوتوں کے درمیان کئی تصادم ہوچکے ہیں۔ چند ایک سول افراد موت کا لقمہ بھی بنے ہیں۔ اس بحران کی بازگشت بی بی سی تک سنائی دی گئی۔ پیپلزپارٹی اور چند این جی اوز بھی اس سنگین مسئلے کو ” ہائی لائٹ “ کرنے میں مشغول رہی ہیں…. لیکن صرف بیانات دینے کی حد تک۔
انور جاوید ڈوگر قول کا نہیں عمل کا آدمی تھا۔ وہ صرف گفتار کا غازی بننے پر تیار نہیں تھا۔ اس نے اوکاڑہ کے غریب اور بے کس مزارعوں کی حمایت میں ذاتی جدوجہد کی اور اس کوشش اور تگ و دو میں اس پر کئی مقدمات بنائے گئے اور وہ کئی بار جیلوں میں گیا، جہاں مقتدر قوتوں نے اسے ” راہ راست “ پر لانے کے لئے تشدد بھی کیا مگر وہ باز آنے والی چیز نہ تھا۔
جناب مجیب الرحمن شامی نے انور جاوید ڈوگر کی اس جدوجہد اور تشدد سہنے کی جو کہانی تین قسطوں میں روزنامہ ” پاکستان “ میں شائع کی، اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قطع کا اخبار نویس تھا اور اس نے اوکاڑہ کے مزارعوں کی اعانت کے لئے اپنا ” سب کچھ “ قربان کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
پھر جناب مجیب الرحمن شامی کی اجازت سے انور جاوید ڈوگر نے روزنامہ ” پاکستان “ میں باقاعدہ کالم لکھنا شروع کردیا تھا جو اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد ہوتے مگر نہ معلوم وجوہ کی بناء پر ان کی طرف سے یہ سلسہ بھی منقطع ہوگیا۔
انور جاوید ڈوگر پر کئی الزامات اور کئی قسم کی تہمتیں لگتی رہیں لیکن فیض احمد فیض کی طرح ان تہمتوں پر وہ کوئی توجہ نہ دیتا نہ ان کی تردید کرتا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ ان الزامات کو زیادہ تر اس لئے اچھالا گیا ، کیونکہ وہ ایک بے وسیلہ اور تہی دست اخبار نویس تھا۔ لوگ اسے منہ بھر کر اس لئے بھی گالی دیتے کہ الزامات لگانے والے یہ جانتے تھے کہ اس کے پاس ایسا کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں سے الزامات کی اینٹ کا جواب پتھر سے آسکتا۔ سو وہ خاموش رہتا اور الزامات کی فہرست بڑھتی رہی۔
جو الزام اس پر لگتے، اسی طرح کے ، بلکہ ان سے بھی زیادہ سنگین الزامات اخبار نویس برادری کے اور بھی صحافیوں پر لگتے رہے ہیں۔ بعض کو میں ذاتی حیثیت میں بھی جانتا ہوں لیکن ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو اس لئے زیادہ نہ اچھالا جاسکا کہ وہ سماجی اعتبار سے طاقتور ہیں۔ باوسیلہ اور جواب دینے کے لئے ان کے پاس ایسے پلیٹ فارم ہیں جہاں سے بلند کی گئی آواز بہت سے کانوں تک پہنچ سکتی ہے، اس لئے ” من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو “ کی گردان جاری ہے۔
ہمارا یہ عظیم اور بے وسیلہ اخبار نویس دوست انور جاوید ڈوگر ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگیا، سینے میں درد کی ایک ایسی جان لیوا لہر اٹھی تھی کہ اس نے بیٹھے بیٹھے دل کو مٹھی میں تھام لیا۔ ویسے تو وہ ساری عمر دل اور سر ہتھیلی پر رکھے جیتا رہا لیکن اس بار دل کو ہتھیلی میں لیا تو زندگی ہار بیٹھا۔ جون کی ایک حبس آلود دوپہر اسے مٹی کی گود میں دے دیا گیا۔
میں اس کے جنازے میں شریک نہ ہوسکا، اس لئے برادرم قربان انجم سے شرمندہ بھی ہوں۔ دنیا کی عدالتوں میں اس کے سارے مقدمے ختم ہوچکے ہیں، اسے ساری فکروں اور سوچوں سے بھی نجات مل چکی ہے۔ اب اس کے اعمال کا مقدمہ اللہ کے حضور پیش ہوچکا ہے۔ مجھے امید بھی ہے اور یقین بھی کہ جب خدا کی عدالت میں اس کے اعمال کی پٹاری کھولی گئی ہوگی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا ہوگا۔
” انور جاوید ڈوگر دنیا میں رہ کر تنگ دستی ، بے چارگی اور جیلوں کی شکل میں جس چکی میں پس کر آیا ہے، اب اس کا مزید امتحان کیا لینا، جاﺅ اسے ہم نے معاف کیا۔
عدل کریں تے تھر تھر کنبن اچیاں شاناں والے
فضل کریں تے بخشے جاون میں ورگے منہ کالے
( جاری ہے )
ایک تبصرہ برائے “انور جاوید ڈوگر، ایک غیرمعمولی انویسٹی گیٹو رپورٹر کی داستان ( دوسری قسط )”
بہت خوب قربان انجم صاحب بہت اچھا لکھا ہے