ابن فاضل :
آپ بنکاک کے بازاروں میں خریداری کیلئے نکلتے ہیں، ہر چھوٹا بڑا دکاندار آپ کو مسکراتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ کر خوش آمدید کرتا ہے. ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں آپ کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے لہجے میں آخری درجہ کا دوستانہ پن ہوتا ہے.
آپ ہزار باتھ والی چیز کا سو باتھ نرخ بتاتے ہیں، نہ ماتھے پر تیوری نہ لہجے میں کڑواہت اسی طرح مسکراتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ کر کین ناٹ.. اور ناٹ کے نا کو حتی المقدور لمبا کرتے ہوئے. تاکہ ان کا انکار آپ کو ناگوار نہ گزرے. کسی بات پر بہت غصہ آئے تو.. نو ہیؤ. لیکن لہجہ وہی.. نو کو لمبا کرکے اور ہیؤ کو بھی. یعنی میرے پاس نہیں ہے.
قطع نظر اس کے کہ ان کا کلیدی مارکیٹنگ ٹول عورت ہے. ملک میں جہاں بھی جاتے ہیں ڈرائیورز، دکاندار اور ہوٹل کے عملے وغیرہ کا رویہ بالکل دوستانہ ہوتا. اسی طرح سنگاپور میں ہر شخص آپ کو تعاون پر آمادہ دکھائی دیتا ہے. غیرملکی سٹورز سے خریداری کرتے ہیں تو انہیں ایک سیلز ٹیکس کی وصولی کی رسید دی جاتی ہے جو انتہائی کم وقت میں بنا دقت کے مل جاتی ہے. اور ائرپورٹ واپسی پر وہی رسید دکھانے پر آپ کو بنا کسی دقت ایک منٹ میں اتنے ڈالرز لوٹا دیے جاتے ہیں.
بیجنگ میں ہم ایک نمائش میں شرکت کرنے کے بعد نکلے تو بہت زیادہ رش ہونے کی وجہ سے نصف گھنٹے تک ہمیں ہوٹل جانے کے لیے ٹیکسی نہ ملی. ہم وہا ں سے ایک کلومیٹر دور ایک نسبتاً کم ہجوم والے سٹاپ تک پیدل چلے گئے. لیکن وہاں بھی کافی دیر ٹیکسی نہ ملی. قریب سے گزرتے ایک نوجوان راہگیر کو مشکل بتائی، خوش قسمتی سے وہ انگریزی سمجھتا تھا.
اس نے ایک اور عمررسیدہ شخص کو بھی بلا لیا. ہلکی بارش ہورہی تھی وہ عمر رسیدہ شخص چھتری ہاتھ میں لیے ہمیں بارش سے بچاتا رہا اور وہ نوجوان سڑک پر ٹیکسیاں روکتا رہا. کافی دیر کے بعد ایک ٹیکسی ملی. جہاں ہم سٹاپ پر کھڑے تھے، اس کے سامنے ایک بہت بڑی پچیس منزلہ عمارت تھی. باتوں باتوں میں اس نوجوان نے بتایا یہ جو عمر رسیدہ شخص چھتری لیے تمہارے ساتھ کھڑا ہے اس بلڈنگ کا مالک ہے اور میں اس کا کرایہ دار ہوں.
یہ عمومی رویے ان ملکوں کے لوگوں نے اختیار کرلیے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کے ہاں بہت سے لوگ سیاحت یا کاروبار کے لئے آئیں. ظاہر ہے کہ کسی ملک میں کسی سیاح سے برا سلوک ہوگا یا خراب رویہ رکھا جائے گا تو نہ صرف یہ کہ وہ خود دوبارہ وہاں نہیں جائے گا بلکہ دس اور لوگوں کو بھی منع کرے گا کہ وہاں مت جانا خراب لوگ ہیں.
ہم سیاحت کے فروغ کیلئے کوششیں کررہے ہیں. دنیا بھر سے سیاحوں کو وطن عزیز لانا چاہتے ہیں تاکہ غیرملکی زرمبادلہ آئے خوشحالی آئے. لیکن ہمارے لوگوں کے اور بطور خاص شمالی علاقہ جات کے لوگوں کےعمومی رویے ہرگز بھی کاروباری نہیں. جھوٹ، چوری اور دھوکہ دہی کا چلن عام ہے. ابھی حال ہی میں مری میں پے در پے ہوئے واقعات سب کے ذہنوں میں تازہ ہیں.
ہمارے ہاں اول تو امن امان کی صورتحال ہی ابھی قابل ضمانت نہیں تاہم ایسے حالات میں اگر ہم باہر کے لوگوں کو لانے میں کامیاب ہو بھی گئے تو ہمارے لوگوں کے رویے انہیں بدظن کردے گا۔ سرکار کی سیاحت کے فروغ کیلئے کوششیں قابل ستائش ہیں مگر پہلے اپنے لوگوں کی تربیت پر توجہ دینا ہوگی. کیونکہ سب جانتے ہیں…. فرسٹ امپریشن از دا لاسٹ.!