رویت ہلال کمیٹی کےچیئرمین اور ارکان کو تنخواہ اور مالی مراعات کس قدر ہیں، اہم انکشافات سامنے آگئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مفتی منیب الرحمن……..
14نومبر کو ایک اخبار میں جناب مستنصر حسین تارڑ کا آرٹیکل چھپا‘ ان کا حق ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کو ختم کرانے کے لیے اپنی پوری توانائیاں ‘ قلمی کاوشیں اور رسوخ استعمال کریں ‘بلکہ ہوسکے تو وزیر اعظم جنابِ عمران خان سے ملاقات کر کے اپنی یہ بے ضرر سی خواہش بالمشافہ ان تک پہنچادیں‘اُن کا بڑا نام ہے ‘ کوئی بعید نہیں کہ ان کی مراد پوری ہوجائے‘لیکن ازراہِ کرم جھوٹ نہ بولیں ۔

مجھے حیرت ہے کہ یہ فاضل کالم نگار اپنے آپ کو علم اور معلومات کا بحرِ زخّار سمجھتے ہیں ‘لیکن سچ جھوٹ کی تمیز کے بغیر جو جی میں آیا لکھ دیتے ہیں ‘کیا میں یہ قیاس کرنے میں حق بجانب ہوں گا کہ اُن کے باقی رشحاتِ قلم بھی ایسے ہی مفروضات پر مبنی ہوتے ہیں‘ انہوں نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے حوالے سے لکھا ہے:
”اس کا مقصد آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ سوائے اس کے کہ کچھ مولانا حضرات کو اس کا ممبر بنا کر بے شمار مراعات عطا کر کے ہوائی جہازوں کے ٹکٹ‘ ہوٹلوں میں قیام‘ کاریں اور باقاعدہ تنخواہیں دے کر ان کی آتش مزاجی کو ذرا دھیما کرنا ہے؛ اگرچہ محترم منیب الرحمن صاحب ان مراعات کے باوجود آسیہ کیس کے حوالے سے خوب گرجے ‘اگرچہ برسے نہیں‘‘۔

جنابِ مستنصر حسین تارڑکی خدمت میں بصد ادب عرض ہے:”مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین اور ارکان کو کوئی باقاعدہ یا بے قاعدہ تنخواہ / اعزازیہ ‘مالی مراعات یا کاریں وغیرہ نہیں ملتیں ۔ اس کے علاوہ بھی اس منصب کے حوالے سے کوئی منفعت نہیں ملتی‘ چہ جائیکہ انہیں ”بے شمار ‘‘قرار دیا جائے‘ یعنی اتنی زیادہ ہیں کہ گنی نہیں جاسکتیں اورجنابِ مستنصر حسین تارڑ کوگنتی کے لیے کافی مشقت اٹھانی پڑتی ہے ‘‘۔

ان کی معلومات کے لیے عرض ہے: ” سال میں صرف چار مرکزی اجلاس ہوتے ہیں‘ ان میں ” مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان ‘‘کے اراکین کو اپنے مقامِ سکونت سے اکانومی کلاس کا ائیر ٹکٹ اور ایک عام سے ہوٹل میں ایک رات کی رہائش دی جاتی ہے اور بس!لیکن ‘چونکہ اجلاس برسوں سے میٹ کمپلیکس کراچی میں ہورہے ہیں ‘ اس لیے یہاں اجلاس کے انعقاد کے لیے مطلوبہ سہولتیں دستیاب ہیں‘ لہٰذا میں بحیثیتِ چیئرمین نہ کوئی ائیر ٹکٹ لیتا ہوں اور نہ ہوٹل کی رہائش. ‘ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کراچی میں میرا اپنا گھر ہے۔

مولویوں یا علماء سے نفرت جناب مستنصر حسین تارڑ اور ان کے ہم خیال لبرلز کا حق ہے ‘ لیکن کیا جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا بھی ان کا استحقاق ہے. ایسے لوگوں کی ذہنیت پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں بحیثیت چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان یہ دینی فریضہ کسی مشاہرے ‘ اعزازیے یا مراعات کے بغیر انجام دے رہا ہوں ‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اپنے دینی نظریات کی قیمت پر اس عہدے پر ہر صورت میں قائم رہنا چاہتا ہوں ‘ایسا ہرگز نہیں ‘ ہمارے لیے دینی ترجیحات بہر صورت مقدم ہیں۔

ختمِ نبوت یا ناموسِ رسالت مآب ﷺ کا مشن ہمارے لیے جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ‘ اس پر کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی ‘ ہم ہمیشہ آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس پر اپنا موقف پیش کرتے رہے ہیں اور اگر کسی کی نظر میں یہ جرم ہے تو انشاء اللہ العزیز! آخری سانس تک یہ” جرم ‘‘ہم سے سرزد ہوتا رہے گا‘ کیونکہ یہی ہمارے لیے وسیلۂ نجات وشفاعت ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ تحفظِ ناموسِ رسالت کا قانون ہمارے لبرلز کو بہت کھٹکتا ہے ‘ لیکن اُن کے درد کا درماں ہمارے پاس نہیں ہے‘ کیونکہ یہ نہ صرف ملتِ اسلامیہ پاکستان‘ بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔

ویسے ہمارے کالم نگاروں کو ”مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان ‘‘ کے وجود کو غنیمت سمجھنا چاہیے ‘ کیونکہ جب جنابِ مستنصر جیسے کہنہ مشق اور قادر الکلام اہلِ قلم کو بھی کوئی موضوع مستحضر نہ ہو ‘ تو اس سے کام چلا لیتے ہیں‘ ورنہ بظاہر یہاں کوئی ایسا موقع نہیں تھا ‘ لیکن روٹی تو کسی طور کماکھائے مچھندر!‘ اسی کو کہتے ہیں: ”ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘‘ کیونکہ درد تو آسیہ مسیح کا ہے ‘ لیکن غصہ رویت ہلال کمیٹی پر اتار رہے ہیں‘‘۔
جنابِ مستنصر حسین تارڑکو معلوم ہونا چاہیے :”میں ”آتش مزاج‘‘ نہیں ہوں ‘ الحمد للہ علیٰ احسانہٖ ! ٹھنڈے مزاج کا حامل ہوں ‘ اُن کے علاوہ کسی اورنے مجھ پرکم از کم یہ الزام نہیں لگایا۔میں اُن جیسی قابلیت تو نہیں رکھتا ‘ لیکن متانت اور وقار سے بات کرتا ہوں ‘نظریاتی اختلاف کرتے ہوئے بھی شخصی احترام کو ملحوظ رکھتا ہوں‘ زبان وبیان قابو میں رکھتا ہوں ‘ نہ نفرت انگیز باتیں کرتا ہوں اور نہ کسی کی نفرت کی روشنائی میں قلم ڈبوکر لکھتا ہوں ‘‘


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں