فریحہ ناز :
ریاست مدینہ کی بنیاد رکھنے والے خدا کی عطا پر ختم نبوت کے علمبردار کہلائے مگر یہ کہنا بھی ایک نیک جسارت ہے کہ وہ اپنے میرٹ پر رحمت للعا لمین بھی کہلائے۔ انہوں نے اپنے اعمال و کردار سے ثابت کیا کہ ان سے پہلے اور ان کے بعد ان سے بہتر کوٸی انسان آیا ہی نہیں۔ مکہ تو فتح ہوا تھا مگر مدینہ آپ کی اعلیٰ انسانی اقدار کی بدولت آپ کے ہاتھوں میں آگیا ۔ ریاست مدینہ کی بنیاد رکھنے کے لیے آپ سے زیادہ موزوں کوئی ہوہی نہیں سکتا تھا۔ آپ کے پردہ فرمانے کے بعد آپ کی اعلیٰ انسانی اقدار کو چاروں خلفائے راشدین نے اپنے طرزعمل سے زندہ رکھا۔ وہ مثالی ریاست جس کے خواب ارسطو اور افلاطون دیکھا کرتے تھے ریاست مدینہ کی عشرعشیر بھی نہیں تھی۔
آج پھر ریاست مدینہ کا شور ہے مگر آج کے ریاست مدینہ کے ولی کے پاس اپنے جانوروں کے لئے تو وقت ہے مگر ٹھٹھرتی سردی اور سنسناتی ٹھنڈی ہوا میں بے یارومددگار اپنے پیاروں کی میتیں سامنے رکھے لو گوں کو دلاسہ دینے کا وقت نہ تھا۔
ہم نے تو سنا تھا مدینہ میں بیماروں کی بھی مزاج پرسی کی جاتی تھی۔ ہم نے تو سنا تھا ضرورت کے وقت غیر مسلموں کے لیےبھی مسجد نبوی کے دروازے کھلے ہوتے تھے۔ ہم نے تو سنا تھا مذہبی اختلاف کے باوجود یہودونصاری کے انسانی حقوق کا خیال مسلمانوں کے حقوق کی طرح کیا جاتا تھا۔ سنا تھا خلیفہ اپنے خلیفہ بنائے جانے پر کٸ راتیں روتے رہے کہ روزمحشر ان سے ان کے نبی کی امت کے بارے پوچھا جائے گا۔
سنا تھا کسی عورت کے گھر سے بھوک سے بلکتے بچوں کے رونے کی آواز سن کے خلیفہ نے اپنی کمر پر اناج کی بوری لاد کے اس کے گھر پہنچائی تھی۔ سنا تھا کہ خلیفہ کے گھر کا 40 دن محاصرہ کرنے والے باغیوں کے سر قلم کرنے کا حکم دینا بھی خلیفہ نے گوارا نہ کیا۔ سنا تھا امن و امان کی خاطر خلیفہ نے اپنے آباٸی سر زمین سے دارالحکومت منتقل کر لیا تھا۔
سنا تھا خلیفہ کوفہ کی گلیوں میں گھوم گھوم کے اس رعایا کی خبر گیری کرتے تھے جن کے ہاتھوں نے ان کے خاندان کے خون سے رنگنا تھا۔ یہ آج کون سی ریاست مدینہ ہے کہ جہاں انسانوں کی لاشیں گرا دی جاتی ہیں مگر خلیفہ توہم پرستی کے ہاتوں یرغمال بنا رہتا ہے۔ یہ کون سی ریاست مدینہ ہے جہاں لواحقین ” ریاست مدینہ “ کے ولی کے دست شفقت کے لیے اپنے پیاروں کی لاشیں چھ دن لے کے بیٹھے رہتے ہیں اور ولی ان سے ضد باندھے رکھتا ہے کہ میتوں کی تدفین ہو گی تو تعزیت ہو گی۔
مورخہ 9 جنوری کو کفر ٹوٹا اور وزیراعظم صاحب کوٸٹہ کو روانہ ہوئے ، تب جب لواحقین نے ہار مانتے ہوئے اپنے پیاروں کو مٹی کے سپرد کر دیا مگر اس سے ٹھیک ایک دن پہلے ریاست مدینہ کے وزیراعظم لواحقین کے احتجاج کو بلیک میلنگ قرار دیتے ہیں۔ 126 دن ریاست کو یرغمال بنائے رکھنا بلیک میلنگ نہیں تھی۔ کورونا کے باوجود اپوزیشن کا جلسے کرنا بلیک میلنگ نہیں ہے۔
وزیراعظم صاحب آپ نے بجا فرمایا ایسے وزیراعظم کو کہیں بلیک میل نہیں کیا جاتا مگروزیراعظم صاحب دیوار سے لگی یہ کمیونٹی کئی سو حملے سہہ چکی ، ہزاروں لاشیں بھی اٹھا چکی ، پھر بھی ان کا مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بلیک میلنگ ہے۔
آپ شاید بجا فرما رہے ہوں کہ شہدا کی میتوں کو سیاسی فاٸدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، یہ بھی بجا ہو سکتا ہے کہ دھرنا منتظمین اور لواحقین کے مطالبات الگ الگ ہوں مگر ان کے ایسے استعمال ہونے کا موقع ریاستی کمزوری نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ شدید عدم تحفظ نہیں تو کیا ہے
حالانکہ اس شدید عدم تخفظ کی جڑیں برصغیر کی آزادی سے بھی گہری ہیں جب پشتونوں کو ترجیح دینے کے سلسلے میں افغانستان میں ان سے نسلی امتیاز کی انتہا کر دی گئی تو یہ یہاں پہنچے۔ آج پاکستان میں ان کی تعداد 9 لاکھ کے قریب ہے مگر ان کے لیےریاست ماں ثابت نہیں ہوٸی ۔ کشمیریوں ، فلسطینوں اور برما میں مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے والوں کو ہزارہ برادری کا احتجاج بلیک میلنگ لگ رہا ہے۔
وزیراعظم کا بر وقت جانا ان کی اخلاقی ہی نہیں آٸینی زمہ داری بھی تھی۔ وزیراعظم کو تو شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ لواحقین نے ان سے دست شفقت مانگا تھا۔ ان کے ہاتھ اس قوم کے گریبانوں تک نہیں پہنچے۔ میتیں رکھ کے احتجاج کرنے والے لواحقین پر تنقید کرنے والے شاید قوم کو باور کرا رہے ہیں کہ ایسے سانحات روز مرہ کی کاررواٸی ہیں۔ اس سے زیادہ ذہنی غلامی کیا ہو گی۔
زندہ قومیں حکمرانوں کو بھرے مجمع میں للکارتی ہیں، ان کے سیاہ وسفید پر ان کا دفاع نہیں کرتیں۔ زندہ قومیں اپنے خلاف سازشوں کو روزمرہ کی روٹین جان کر ایسے سانحات پر وقت کی ریت نہیں ڈالتیں۔ ایسے کسی بھی سانحہ پر مذہبی یا نسلی تعصب کی آڑ میں خاموشی اختیار کرلینے والوں کو اپنے آپ سے حضرت یوسف سے بے وفائی کی بو تو آتی ہوگی۔
ایک تبصرہ برائے “نئی ” ریاست مدینہ“ اور مچھ کے لواحقین”
Behtreen tehreer