ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی :
پہلے یہ پڑھیے
بیاد بیگم مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ( حصہ اول )
بیاد بیگم مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ ( حصہ دوم )
’ پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال ‘ کی ایمبولینس میں امی جی (ساس محترمہ) کی میت کے پاس بیٹھے میرے شوہر ڈاکٹر عبید الرحمن محسن صاحب، میں اور میری نند باجی فاطمہ رو رو کر بے حال تھے۔
رات کا ہر سو پھیلا سناٹا، سنسان راستے اور وقتاً فوقتاً ایمبولینس کا بجتا سائرن اس وقت کیسے مناظر پیش کر رہے تھے!!!
امی جی کی میت کے پاس بیٹھے دبی دبی، گھٹی گھٹی سسکیوں اور ہچکیوں کے ساتھ ہماری آنکھوں سے کیسے مسلسل آنسو گر رہے تھے!!!
وہ کیسا مختلف اور طویل سفر تھا جو طے ہونے میں نہیں آرہا تھا!!!
وہ کیسی طویل رات تھی جو کٹنے میں نہیں آرہی تھی!!!
وہ ہمارا کیسا ساتھ تھا جس میں ہم تینوں نفوس امی جی کی میت کے پاس بیٹھے ان کے لیے مغفرت کی دعائیں بھی مانگ رہے تھے، ایک دوسرے کو حوصلہ بھی دے رہے تھے اور رو بھی رہے تھے!!!
وہ کیسا معاملہ تھا جب درد دل کبھی آنسوؤں کی صورت میں قطرہ قطرہ بن کر آنکھوں سے چھلک رہا تھا اور کبھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ کی صورت میں زبان سے ادا ہو رہا تھا!!!
مجھے نبی صدق و صفا، خاتم النبیین ﷺ کے وہ الفاظ یاد آگئے جو انہوں نے اپنے ننھے منے بیٹے ابراہیم کی وفات پرارشاد فرمائے تھے۔
ترجمہ: ’ بے شک آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غمزدہ ہوتا ہے، مگر ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہوگا۔‘(صحیح بخارى: 1303)
الحمد للّٰہ! اللہ تعالیٰ نے غم و الم کے اس کٹھن موقع پر بھی ہمیں اپنی رضا پر راضی رکھا۔
یہ مورخہ 19 جنوری 2019ء جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب تھی جب امی جی تقریباً رات کے تقریباً ساڑھے بارہ بجے ہمیں ہمیشہ کے لیے داغِ مفارقت دے گئی تھیں۔ عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا تھا!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راستے میں ڈاکٹر محسن صاحب نے ساری تفصیل بتائی۔
” رات کے بارہ بجے آپ کے وارڈ سے نکلنے اور باجی فاطمہ کے اندر آنے کے بعد امی جان کی آنکھ کھل گئی۔“ انہوں نے بتایا۔
” میں نے واش روم جانا ہے۔“ انہوں نے بیدار ہو کر کہا تھا۔
” لہٰذا ہم دونوں بہن بھائی انہیں وہیل چیئر پر بٹھا کر واش رام لے گئے۔ امی جی واش روم کے اندر اکیلی گئیں اور فراغت کے بعد طہارت بھی خود کی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا کیا تھا اور انہیں کسی بھی محتاجی سے بچا لیا تھا۔“ ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا۔
” جب وہ واش روم سے باہر آئیں تو میں نے آگے بڑھ کر انہیں وہیل چیئر پر بٹھا دیا۔“ ڈاکٹر محسن صاحب بولے۔
” میں نے وضو کرنا ہے۔“ وہ کہنے لگیں۔
” ان کی خراب طبیعت کے پیشِ نظر بظاہر یہ مشکل تھا۔ لیکن وہ تہجد گزار اور عموماً باوضو رہنے والی خاتون ہیں۔“ میں نے دل میں سوچا۔
” امی جی کو وضو ضرور کروانا چاہیے۔“ میرے دل میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ بات ڈال دی تھی۔
” چنانچہ میں نے خود امی جی کو وضو کروایا۔ اپنے ہاتھوں سے پانی لے کر ان کے ہاتھ دھلوائے۔ کلی بھی ان کے منہ میں پانی ڈال کر اپنی انگلی سے خود کروائی۔ پھر اسی طرح سارا وضو مکمل کروایا۔ وضو کرتے ہوئے انہیں بہت پسینہ آرہا تھا۔“
ڈاکٹر صاحب نے ساری کیفیت بیان کی۔
” دروازہ کون کھٹکھٹا رہا ہے؟“ وضو کے دوران وہ کہنے لگیں۔
” (شاید موت کے فرشتے کی آمد آمد تھی) کیونکہ دروازہ تو کسی نے نہیں کھٹکھٹایا تھا۔“ باجی فاطمہ روتے ہوئے کہنے لگیں۔
” وضو کروانے کے بعد ہم نے واپس ICU وارڈ میں لا کر انہیں بیڈ پر لٹایا۔ چند منٹ بعد انہوں نے چند اشارے کیے جیسے نماز پڑھ رہی ہوں۔ پھر اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر پھونک ماری جیسے دم کیا ہو۔“ ڈاکٹر صاحب نے بتایا۔
” امی جی! آپ نے اب کیا پڑھا ہے (یعنی کون سی نماز)؟“ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔
” بیٹا! میں نے دو رکعتیں پڑھیں ہیں۔“ انہوں نے جواب دیا۔
” وضو کے بعد ان کے چہرے پر تازگی اور نور آ گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے سورۃ السجدہ پڑھنی شروع کر دی۔ جو رات کو سونے سے پہلے پڑھی جانے والی مسنون سورۃ ہے۔ وہ پہلے بہت آہستہ پڑھ رہی تھیں لیکن پھر تیسری آیت کا آخری حصہ انہوں نے اونچی آواز میں پڑھا۔“
ترجمہ: ” پھر وہ عرش پر مستوی ہو گیا. کیا پھر تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟“
” میں نے ان کے پاس بیٹھ کر اونچی آواز میں سورۃ الفاتحہ پڑھی۔ امی جی نے بھی ساتھ ساتھ دل میں پڑھی۔ ان کے ہونٹ مسلسل حرکت کر رہے تھے۔ الحمدللہ رب العالمین۔۔۔غیرالمغضوب علیھم ولا الضالین۔“
ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے۔
” آمین۔“ انہوں نے سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر اونچی آواز میں کہا۔
” اس وقت امی جی کی حالت بظاہر کچھ سنبھلی ہوئی لگ رہی تھی مگر در حقیقت شمع بجھنے سے پہلے ٹمٹما رہی تھی۔“ ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ کلام آگے بڑھایا تھا۔
” پھر میں نے اونچی آواز میں کلمہ طیبہ پڑھا تو امی جی نے بھی ویسے ہی اونچی آواز میں کلمہ پڑھا۔ ان کی نورانی پیشانی پر پسینہ آیا ہوا تھا۔ خاتم النبیینﷺ کا فرمان ہے کہ:
’ مومن پیشانی کے پسینے کے ساتھ فوت ہوتا ہے۔‘ (النسائی، کتاب الجنائز، حدیث: 1830) “ ڈاکٹر صاحب نے ساتھ حدیث بھی بیان کی۔
” کلمہ پڑھنے کے بعد انہوں نے مزید کوئی بات نہیں کی اور خاموش رہیں۔ نزع کے مشکل ترین وقت کی سختیاں اور بےہوشیاں رب رحمٰن و رحیم اپنی مہربانی سے آسان کر رہا تھا۔
پھر انہوں نے ایک گہری سانس لی گویا ہچکی لی ہو اور پھر یکا یک ان کے سینے سے آخری سانس بھی خارج ہو گیا۔ ان کی اس وقت کی کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔“ ڈاکٹر صاحب نے بڑے کرب سے آنکھیں موند لیں اور سسکیوں میں بیان کیا۔
” اس کے لیے آپ اپنے احساسات و جذبات کی فریکوئنسی(frequency) کو میرے ساتھ Adjust کریں تو شاید شاید ۔۔۔۔۔۔۔ تب آپ اس کیفیت کو محسوس کر سکیں۔!!!“ ڈاکٹر صاحب نے اپنے احساسات کو زبان دینے کی کوشش کی۔
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتےنہیں
حقیقت میں وہ کبھی ہم سےجدا ہوتےنہیں
” ان کی مومن روح قفسِ جسدی سے پرواز کر چکی تھی۔ آنکھیں پتھرا سی گئی تھیں جیسے اپنی جاتی روح کا تعاقب کر رہی ہوں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
پھر ۔۔۔۔۔ ہم نے جان لیا اور مان لیا کہ اللّٰہ رب العزت کا حکم پورا ہو چکا ہے۔ رب العالمین کا ارشاد ہے کہ:
ترجمہ: ” ہر نفس نے موت کا مزا چکھنا ہے۔“ ڈاکٹر محسن صاحب کی آنکھیں آنسوؤں کی برکھا برسا رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راستے میں امی جی کی وفات کی تصدیق کے لیے واقف کاروں کے فون اور میسج آنے شروع ہو گئے تھے۔ میں نے واٹس ایپ سٹیٹس لگا دیا اور مختلف گروپوں میں بھی خبر سینڈ کردی۔ اور اس کے بعد موبائل بند کر دیا۔
ہاں یاد آیا! اپنی وفات سے کچھ دیر پہلے انہوں نے ایک بہت اچھی بات یہ کہی تھی کہ ” بیٹا! کلثوم (پڑھنے والی بچی) کبھی نماز پڑھتی ہے اور کبھی نہیں (یعنی چھوڑ دیتی ہے)۔“ وہ اس حالت میں بھی فکر مند تھیں۔
” امی جی ! میں کلثوم کو سمجھاؤں گا۔ وہ ساری نمازیں پڑھا کرے گی انشاء اللّٰہ!“ ڈاکٹر محسن صاحب نے انہیں تسلی دلائی تھی۔
” اے اللّٰہ! ہماری نسلوں میں سے کسی کو بے نماز نہ بنانا۔“ ڈاکٹر صاحب نے اونچی آواز میں کہاتھا۔
” آمین۔“ امی جی نے بےساختہ کہا
گویا ان کااشارہ نماز کی طرف تھا اور یہ ان کی وصیت تھی۔
سرور کونینﷺ کی آخری وصیت بھی تو یہی تھی کہ
ترجمہ: ” نماز اور لونڈی غلام“ ( یعنی ان کا خیال رکھنا)
تو نبی مہربان ﷺ کی اس امتی کی بھی ان کی پیروی میں یہی وصیت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمدللّٰہ! اللّٰہ تعالیٰ نے امی جی کا اس طرح حسنِ خاتمہ فرمایا کہ جس نے سنا، اس کا ایمان تازہ ہوگیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے!!!
ان کو اللّٰہ رب العزت نے کتنی خوبصورت موت دی تھی !!!
اس طرح کی موت کسی بھی ہستی کو، والدین، بہن، بھائی، میاں، بیوی، بچوں کو نصیب ہو جائے تو اقرباء کا غم بہت حد تک زائل ہو جاتاہے۔!!! سبحان اللّٰہ!
وفات سے پہلے وضو کرنا، دو نفل پڑھنا، اس کے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھنا اور پھر سورۃ السجدہ کی خوبصورت آیت اونچی آواز میں تلاوت کرنا، کلمہ طیبہ پڑھنا، پیشانی پر پسینے کے ساتھ اپنے مہربان رب کے حضور پیش ہو جانے کی سعادت حاصل کرنا وغیرہ سب حسنِ خاتمہ کی علامات ہیں!!! اللہ اکبر کبیرا۔
سورۃ السجدہ کی تیسری آیت یہ ہے۔
ترجمہ: ” اللّٰہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو اشیاء ان دونوں کے درمیان موجود ہیں سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر وہ عرش پر جا ٹھہرا۔ اس کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ سفارش کرنے والا۔ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبحان اللہ! وہ جاتے جاتے بھی ہمیں توحید کا درس دے گئیں!!!
کتنی واضح نشانیاں تھیں ان کے مومنہ ہونے کی!!!
کیسا حسنِ خاتمہ تھا ان کا اس فانی دنیا سے رخصت ہونے کا!!!
واللّٰہ! میرا تو ایمان تازہ ہو گیا!!!
جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے!!!
آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے!!!
” اللّٰہ تعالیٰ ہمارا بھی حسنِ خاتمہ فرمائے۔ کلمہ طیبہ پر موت نصیب کرے۔ ہر قسم کی معذوری و محتاجی سے بچائے اور چلتے پھرتے اپنے پاس بُلا لے!!!“ میرا رُواں رُواں دعاگو ہو گیا۔
پھر ہزاروں مؤحدین کا ان کی نمازِ جنازہ ادا کرنا تو بہت بڑی سعادت ہے۔ مرد علماء کو تو اللّٰہ تعالیٰ بہت بڑے بڑے جنازے عطا کرتے ہیں لیکن ایک عورت کا اتنا بڑا جنازہ نہیں دیکھا۔ وہ ایک متقی مومنہ، قرآن پڑھانے والی استاد اور مہمان نواز خاتون تھیں، اپنی اولاد و احفاد کے علاوہ بہت سی طالبات اور ان کے عزیز و اقارب کے لیے وہ ماں کی حیثیت رکھتی تھیں۔ جن کے جنازے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شامل ہو کر ان کی مغفرت کے لیے رو رو کر دعائیں کیں۔
مقدورہوتوخاک سےپوچھوں کہ اے لیئم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے!
وہ ہم سب کو دنیا کی حقیقت بتا اور آخرت کی خوبصورتی سمجھا گئی ہیں!!!
ان کے علماء بیٹے، حفاظ و قراء پوتے اور نواسے، اور سب سے بڑھ کر دار الحدیث راجووال، ریاض الحدیث للطالبات، دار القرآن اور الفیصل اسلامک سنٹر کی صورت میں ان کے خون پسینے سے لگے دین کے پودے سب باباجی یوسف کے ساتھ ساتھ ان کی بھی کاوشوں کا نتیجہ ہیں!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” اے رب کریم! یہ سب کچھ ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے، ان کی سیئات سے درگزر فرما، حسنات قبول فرمااور انہیں اعلیٰ علیین کا قیام اور جنت الفردوس عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین۔ “ دل سے ان کے اور باباجی یوسف کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیےکس کے لیے، کس کس کاماتم کیجیے
( آتش)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” آج کے اس دورِ فتن میں اپنے بچوں کی کماحقہ تربیت کرنا بہت دشوار ہو چکا ہے۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا ہر طرف دور دورہ ہے۔ بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل، آئی پوڈ، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر ہے جن سے وہ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ہماری مائیں خوش قسمت ہیں جنہوں نے اپنے فرائض کو نسبتاً سادہ وقتوں میں احسن طریقے سے سر انجام دیا ہے اور پھر خالقِ حقیقی سے جا ملی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ “۔ میں تفکر سے سوچتی رہی اور تعزیت کے لیے آنے والی فہم وفراست رکھنے والی خواتین سے حسب موقع اور حسب حال بات کرتی رہی۔
” انہوں نے تو اپنے حصّے کی شمع جلا دی ہے اور اب اجر میں جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین کے مقام پر فائز ہو کر رب تعالیٰ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوں گی۔ ان شاءاللّٰہ۔“ میں ان خواتین کو اور وہ مجھے امید دلاتی رہیں۔
” لیکن ہم ۔۔۔ ہم آج کی مائیں ۔۔۔ ہمارا کام، ہماری محنت، ہماری تربیت ابھی نامکمل ہے، ناقص ہے۔ کیا ہم اپنی اولادوں کو تعلیم و تربیت کا وہ بلند معیار دے سکیں گے جو ان مرحومین کا شِعار رہا ہے؟ کیا ہم اپنی طالبات کو صدق و وفا کی منزلوں تک لے جا سکیں گے جو اہلِ قرآن کا خاصہ ہوتی ہیں؟“ میں دل کی گہرائیوں سے تدبر کرتی ہوں۔
اے اللّٰہ! صرف آپ کی رحمت کی آس ہے۔ آپ کے فضل وکرم سے سوال ہے کہ ” یاللہ! ہمیں اپنے ذمہ داریوں کو کماحقہ احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین!“
6 پر “بیاد بیگم مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ ( تیسرا اور آخری حصہ )” جوابات
الحمدللہ ثم الحمدللہ۔۔ایسی مائیں امت مسلمہ کے لیے عظیم نعمت ہیں۔ رب العزت تمام مسلم خواتین کو اپنے فرائض اور تربیت سے روشناس فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ پڑھ کر بہت اچھی لگی۔ بہترین طریقے سے تاثرات بیان کیے گئے ہیں۔ دل پر گہرا اثر ہوا۔
ماشاءاللہ۔ بہت زبردست!
ماشاء اللہ بہت عمدہ!
ایسی صالح اور نافع خواتین ہمارے لیے رول ماڈل ہوتی ہیں.
پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آگیے
Great Article!
Effective and Attractive!
Yousuf. May Allah bless Molana