رئوف طاہر

رئوف طاہر ، نظریاتی محاذ کے نڈر مجاہد

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حکیم نیاز احمد ڈیال :

نظریات انسان کو ہمیشہ زندہ جاوید رکھتے ہیں اور نظریاتی لوگ مر کر بھی امر ہوجاتے ہیں۔ ہم عصروں سے برتائو ، باہمی رویے اور اخلاص ہی وہ اوصاف ہیں جو کسی کو زندگانی جاوداں سے نوازتے ہیں۔ دنیا سے چلے جانے کے بعد عام طور انسانوں کو نہیں بلکہ ان کے طرز عمل اور حسن سلوک کو یاد رکھا جاتا ہے۔علم وحلم ، تحمل و بردباری ، رکھ رکھائو اور وضعداری ، ہمت وحوصلے اور دلکش مسکراہٹ کا مہکتا ایک گلدستہ کارساز زیست کو ہمیشہ کے لیے اپنی یادوں ، یادداشتوں اور محبتوں کی مہک سے مہکا کر جاوداں زندگی کی جانب عازم سفر ہوگیا۔

صحافتی برادری میں انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے ایک بلند ہمت نڈر اور اصول پسند صحافی ، معروف کالم نگار اور عظیم انسان جناب رئوف طاہر صاحب حرکت قلب بند ہوجانے کے سبب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی عمر 60 برس تھی۔ صبح پڑھانے کے لیے یونیورسٹی گئے ، پہلی کلاس سے فارغ ہوئے تو دل میں درد محسوس ہوا۔ انہیں قریبی ہسپتال میں لےجایا گیا تو ڈاکٹرز نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔

اگر چہ انہیں بلڈ پریشر کا عارضہ تو کافی سالوں سے لاحق تھا لیکن دل کا دورہ پہلی بار پڑا اور جان لیوا ثابت ہوا۔ صحافتی دنیا میں کئی عشرے نشیب وفراز عروج وزوال سے نبرد آزما رہنے والے رئوف طاہر صاحب ایک کہنہ مشق صحافی ، منجھے ہوئے کالم نویس اور ایک بھرپور نظریاتی تو تھے ہی لیکن آپ ایک سچے مسلمان ، پکے پاکستانی اور انسانی خصلتوں سے مالا مال بلند اخلاق انسان بھی تھے۔

ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ وہ واضح سیاسی نظریات کے حامل ہونے کے باوجود اپنے مخالف حلقوں میں بھی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہے ہیں۔

ہمارا ان سے تعلق 1990کی دہائی میں نوائے وقت کے دفتر میں بنا تھا اور یہ تعلق علاقائی نسبت سے کچھ ایسا پروان چڑھا کہ آج تک عزت و احترام کے ساتھ ساتھ خلوص و اپنائیت کی خوشبو سے لبریز رہا۔ان کا تعلق میرے پیارے شہر ہارون آباد سے تھا اور ان کا بچپن شرقیہ ڈبہ کی گلی محلوں میں ہی بسر ہوا تھا۔

ابتدائی تعلیم بھی ہارون آباد سے حاصل کی۔ ان سے تعارف ہونےاور تعلق کی مضبوطی کی سبب بھی ہارون آباد ہی بنا۔ ہم ان دنوں ماہنامہ پھول کے ایڈیٹر اختر عباس کے ساتھ ماہنامہ پھول میں بطور معاون کام کیا کرتے تھے۔ ان سے آتے جاتے جب بھی ملاقات ہوتی وہ ہمیں ہمیشہ پھول بھیا کہہ کر ہی بلاتے۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کی افتتاحی تقریب میں طویل مدت کے بعد باہم ہوئے تو انہوں نے ہمیں دور سے دیکھتے ہی مخصوص لہجے میں پھول بھیا کہہ کر پکارا اور تادیر گلے لگا کر بھینچے رکھا۔ان کی باتوں کی مٹھاس ان کی یادوں کی مہک آج بھی چہار سو محسوس ہورہی ہے۔رئوف طاہر صاحب سے ہم نے بہت کچھ سیکھا۔

2020 کے ابتدائی دنوں میں جب آپ جہانزیب بلاک میں رہائش پزیر تھے ، قریب ہونے کے باعث ہم اکثر محافل سجایا کرتے تھے۔ ہمیں کئی بار ان کے ہاں ایک ساتھ ناشتے اور کھانے پہ اکٹھے بیٹھنے کاموقع ملا۔ چائے کا دور تو گاہے بگاہے چلا ہی کرتا تھا۔

آپ نے زندگی کے سخت ترین مراحل شب وروز محنت اور سعی مسلسل سے طے کرتے ہوئے اپنا ایک منفرد مقام اور صحافتی دنیا میں الگ پہچان بنائی۔ دستیاب معلومات کے مطابق آپ کے صحافتی سفر کا آغازجماعت اسلامی کے ہفت روزہ جریدے ایشیاء سے ہوا۔ آپ نے اپنے وقت کے معروف سیاسی میگزین ہفت روزہ زندگی کے تمام معاملات ایک عرصے تک نبھائے۔

ہم ان سے ہفت روزہ زندگی کے دفتر لوئر مال ملنے جاتے تو وہ ہمہ تن گوش بھی ہوتے اور اپنی ذمے داریوں کے نبھانے میں بھی مگن ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے روز نامہ نوائے وقت اور اردو نیوز جدہ سمیت کئی صحافتی اداروں میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ رئوف طاہر مرحوم نےروز نامہ جنگ میں کالم نویسی کی ابتدا کی اور تادم مرگ روز نامہ دنیا میں جمہور نامہ کے عنوان سے ان کے کالمز شائع ہوتے رہے۔

وہ ظفر علی خان ٹرسٹ کے سیکریٹری بھی تھے اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشنز پنجاب اور ریلوے میں نمایاں عہدوں پر بھی فائز رہے۔ ایک یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کے طورپر پڑھا بھی رہے تھے۔ انہوں نے اپنی تمام عمر اسلام، نظریہ پاکستان، آئین و جمہوری اقدار کی سربلندی کے لئے مسلسل کام کیا اور اپنے اصولوں اور نظریات پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ اپنے نظریاتی محاذ پر ایک نڈر اور بے خوف مجاہد کی طرح ڈٹے رہے۔

اگر چہ ان کی سیاسی نظریاتی وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود وہ مخالفت برائے مخالفت کے قائل نہیں تھے۔اپنےبدترین نظریاتی مخالفین کا بھی دل سے احترام کرتے۔ رئوف طاہر صاحب مکمل طور پر سیلف میڈ آدمی تھے۔ انہوں نے زندگی بھر محنت ، دیانت اور خلوص سے اپنی پروفیشنلز ذمے داریاں نبھائیں۔

ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا شاید کبھی پورا نہ ہوسکے۔ان کی اچانک موت کا سن کر بہت صدمہ ہوا۔ ہم نے ان کی موت کے بارے میں فیس بک پر دیکھا توہمیں تو یقین ہی نہیں ہورہا تھا۔ برادرم عبید اللہ عابد سے رابطہ کیا تو انہوں نے بجھے دل اور دکھ سے لبریز لہجے میں ان کی رحلت کی تصدیق کردی۔ دکھی دل نمناک آنکھوں اور گلوگیر لہجے میں بس اتنا ہی کہہ پائوں گا کہ

جوق در جوق ہی چلے جا رہے ہیں
خدا جانے تہہ خاک تماشہ کیا ہے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں