شاہد حمید :
’’ دو بچے تھے، بلا کے شریر۔ پڑھنے لکھنے سے جان جاتی تھی۔ ہر وقت کھیل کود میں مست۔ والدین الگ تنگ تھے، استادوں کا ناطقہ الگ بند تھا۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ ان کا کیا کیا جائے۔ آخر ایک آدمی نے ان کے والدین سے کہا،
” یہ کام میرے سپرد کیجئے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ ان جیسے کھلنڈروں کو کیسے تعلیم دی جاتی ہے۔“
والدین کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا۔ انہیں اور کیا چاہیے تھا؟ جھٹ پٹ اپنے بچے اس شخص کے سپرد کیے اور خود فارغ ہو گئے۔ نئے اتالیق نے کتابیں کھلوانے کے بجائے گپ شپ شروع کر دی، کوئی بات آسمان کی، کوئی زمین کی۔ بیچ بیچ میں چالاکی سے کوئی نکتہ بھی بیان کر جاتا۔ بچے بھی اتنے بھولے نہیں تھے۔ دو تین دن گزرنے کے بعد ایک نے دوسرے کے کان میں کہا:
”خبردار، یہ بڑا استاد ہے۔ کہیں کھیل کھیل میں ہمیں کچھ پڑھا نہ دے۔“
سویہ کتاب جو آپ کی نظر سے گزرے گی، اسے بھی ایک طرح کا کھیل ہی سمجھیں۔ بڑی ہنر مندی سے کھیلا گیا کھیل۔ اوّل تا آخر کہیں اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی اور جو کچھ اس کے مطالعے سے حاصل ہوگا، وہ بیش بہا ہو گا۔ دریا کوزے میں بند کرتا سنتے آئے تھے۔ یہی عالم یہاں ہے اور مزہ یہ ہے کہ کوزہ بھی مصری کا ہے۔
اس کتاب کا مصنف جوسٹین گارڈر ناروے کا رہنے والا ہے۔ ناول نگاری کے کوچے میں قدم رکھنے سے پہلے وہ گیارہ سال تک ایک ہائی سکول میں فلسفہ پڑھاتا رہا تھا۔ فلسفہ پڑھانا اور وہ بھی ہائی سکول کے طلبہ کو،یہ کوئی آسان کام نہیں۔ ایک تو خود پڑھانے والے کو فلسفے سے دلی لگائو ہونا چاہیے تا کہ موضوع کی غرض و غایت اور تمام باریکیاں اس کی نظر میں ہوں۔ دوسرے اپنے علم کو دوسروں تک اس طرح منتقل کرنے پر قادر ہو کہ یہ نکتہ ان کی سمجھ میں آ جائے۔ یہ بہت دشوار ہے۔
اس کے لیے بیان کی شگفتگی ضروری ہے۔ فلسفہ اگر ٹھیک طرح اور دلچسپ انداز میں نہ پڑھایا جائے تو طالب علم بیزار اور متنفر ہو جائیں گے۔ گارڈر نے جس آسان اور عام فہم پیرائے میں دقیق فلسفیانہ مباحث کو عام قارئین تک پہنچایا ہے، اس سے ہم یہ قیاس کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ بہت اچھا استاد رہا ہو گا۔
بہرحال، ” سوفی کی دنیا “ (Sophie’s World) کے نام سے جو ناول اس نے تحریر کیا، وہ ناروے میں بہت مقبول ہوا۔ ابھی اس کا ترجمہ بھی نہ ہوا تھا کہ اس کا چرچا دنیا بھر میں ہونے لگا (ناروی زبان میں پہلی بار 1991ءمیں شائع ہوا اور اسی سال میں نے لندن کے سنڈے ٹائمز میں اس پر تبصرہ پڑھا تھا )۔
اندازہ ہے کہ اب تک درجنوں زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ (ان میں چینی، ترکی، کوریائی اور تھائی زبانیں بھی شامل ہیں۔ تھائی ترجمے کی افتتاحی تقریب میں تو پچھلے سال ناروے کی وزیراعظم بنفس نفیس شریک ہوئی تھیں)۔
یہی نہیں، اکثر ملکوں میں اس کا ترجمہ بہترین فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست میں شامل ہے۔ (انگریزی ترجمہ پہلے 1994ء میں امریکا میں اور پھر 1995ء میں انگلستان میں شائع ہوا۔ صرف انگلستان میں جنوری 1995ءسے جولائی 1995ء تک مجلد صورت میں اس کے بارہ ایڈیشن چھپ چکے تھے۔ 1996ء میں سستا ایڈیشن منظر عام پر آیا اور ابھی تک بہترین بکنے والی کتابوں کی فہرست میں شامل ہے۔ ایسی سعادت کسی کتاب کے حصے میں بلاوجہ نہیں آتی۔
فلسفے نے روز اوّل سے بنیادی سوالات سے سروکار رکھا ہے۔ ہم کون ہیں؟ جس دنیا یا کائنات میں ہم رہتے ہیں، کیسے بنی؟ اسے کس نے بنایا؟ خیر و شر اور جبر و اختیار کے معنی کیا ہیں؟ ہم اپنی ذات کو، دوسروں کو، کون و مکاں کو کس طرح بہترین طور پر سمجھ سکتے ہیں یا سمجھ بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ تمام اور اس قسم کے متعدد دیگر سوالات فلسفے میں بار بار نئے نئے زاویوں سے سر اٹھاتے رہتے ہیں اور ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
” سوفی کی دنیا “ میں افسانوی انداز میں مغربی فلسفے کے تمام ادوار کا کامیابی سے احاطہ کیا گیا ہے۔ ابتداء وہاں سے ہوتی ہے جہاں اسطور، فلسفہ، تاریخ، سائنس، سب آپس میں گھلے ملے ہوئے تھے۔ رفتہ رفتہ فلسفے اور سائنس کے خدوخال واضح ہونا شروع ہو گئے۔
کتاب کا دوسرا سرا ہمیں بیسوی صدی تک لے آتا ہے جہاں تان اس ”بڑے زناٹے“ یا ”انفجار عظیم“ (Big Bang) پر ٹوٹتی ہے جس کے ساتھ خیال ہے ہماری کائنات کا آغاز ہوا۔ درمیان میں ان تمام فلسفیوں (بشمول سائنس دانوں) اور فلسفیانہ دبستانوں کا ذکر ہے جو اہمیت کے حامل ہیں۔ ان صفحات میں آپ کی ملاقات بڑے دلچسپ اور انوکھے انداز سے دیموکری تیس، سقراط، افلاطون، ارسطو، دیکارت، سپینوزا، گلیلیو، نیوٹن، لوک،برکلی، ہیوم، کانٹ، ہیگل، کیرکیگارڈ، مارکس، ڈارون اور سارتر جیسی شخصیات سے ہو گی۔ فلسفے اور سائنس کے علاوہ ادب کے بے شمار دلچسپ گوشوں تک رسائی کا موقع بھی ملے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک بنیادی سوالات پوچھے نہ جائیں اور صدق دلی سے ان کا جواب دینے کی کوشش نہ کی جائے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ (راقم الحروف کا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ مسلمان ترقی کی دوڑ میں اس لیے پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ انہوں نے فلسفہ پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ آخر فلسفہ ہی تو ہمیں بتاتا ہے کہ سوچنا کیوں ضروری ہے اور سوچا کس طرح جاتا ہے۔)
اگر یہ کتاب آپ کو فلسفے کے مطالعے کی طرف مائل کر سکے تو بڑی بات ہو گی۔ اس کتاب کے لکھنے اور ترجمہ کرنے کا مقصد آپ پر دوسروں کے نظریات تھوپنا نہیں بلکہ آپ کو یہ تحریک دینا ہے کہ آپ کے گردو پیش جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے متعلق خود غور و فکر کریں اور خود اپنے نتائج اخذ کریں۔ اگر یہ صورت حال پیدا ہو جائے، تو شاید ہم نہ صرف خود اپنی زندگی بہتر بنا سکیں گے۔ بلکہ بہتر زندگی گزارنے کے لیے دوسروں کی بھی مدد کر سکیں گے۔
ویسے اگر آپ کو فلسفے سے چڑ ہو تو آپ اس کتاب کو محض ناول کے طور پر بھی پڑھ اور اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس میں صرف فلسفہ ہی انوکھے اور دلچسپ انداز میں سمجھایا نہیں گیا، بلکہ واقعات کا تانا بانا کچھ انداز سے بنا گیا ہے کہ اس میں اونچے درجے کی سراغ رسانی کی کہانی کا لطف بھی شامل ہو گیا ہے۔
کہانی ایک پندرہ سالہ لڑکی کے گرد گھومتی ہے۔ لڑکی کا نام سوفی ہے۔ (مصنف نے یہ نام ارادتاً منتخب کیا ہے۔ یونانی زبان میں Sophie کے معنی عقل و خرد ہیں)۔ ایک روز جب وہ سکول سے گھر لوٹتی ہے، اسے اپنے ڈاک ڈبے میں ایک لفافہ ملتا ہے۔ اس کا اجنبی طرز تحریر اسے چکرا دیتا ہے۔ وہ جھٹ پٹ لفافہ چاک کرتی ہے اور کاغذ باہر نکالتی ہے۔ اس پر دو سوال درج ہیں:
تم کون ہو؟ یہ دنیا کہاں سے آئی ہے؟
یہیں سے سوفی کا دنیائے فلسفہ کا سفر شروع ہو جاتا ہے اور اس سفر میں اس کی رہنمائی کا فریضہ ایک پراسرار معلم سر انجام دیتا ہے۔ یہ معلم کون ہے، لاکھ کوشش کے باوجود سوفی اس کا اتاپتا معلوم کرنے میں ناکام رہتی ہے اور معلم خود بھی اپنی شناخت چھپانے پر مصر ہے لیکن معلوم کی شناخت ہی سوفی کا واحد مسئلہ نہیں۔
اسے آئے روز پوسٹ کارڈ موصول ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کارڈوں کی مخاطب وہ خود نہیں، بلکہ ہلڈے نام کی کوئی لڑکی ہے۔ پھر یہ اسے کیوں بھیجے جا رہے ہیں؟ انہیں کون بھیج رہا ہے؟ کیوں بھیج رہا ہے؟ یہی نہیں، کسی پر اسرار طریقے سے اس ہلڈے کی اشیا اس کی اپنی اشیا میں خلط ملط ہوتی رہتی ہیں، کیوں؟ کیسے؟ بے چاری سوفی سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی رہتی ہے۔
اسے تو یہ تک معلوم نہیں کہ ہلڈے کون ہے۔ ہلڈے کو تو چھوڑیں، وہ تو یہ بھی نہیں جانتی کہ وہ خود کون ہے۔ ان تمام سوالوں کو حل کرنے کے لیے سوفی اپنا فلسفے کا نیا علم استعمال کرتی ہے لیکن اس پر جو حقیقت منکشف ہوتی ہے، وہ اتنی عجیب و غریب ہے کہ اس نے شاید اس کے متعلق کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ اور یہاں حقیقی اور خیالی دونوں دنیائیں آپس میں گڈمڈ ہو جاتی ہیں۔‘‘
ایک تبصرہ برائے “’ سوفی کی دنیا ‘”
میرے نئے سال کا آغاز بادبان کی یہ خوبصورت تحریر پڑھنے سے ھوا ہے۔ تحریر ایسی ہی ہونی چاہیئے جو ایک دم بہت کچھ دے جائے ۔ شاہد صاحب آپ کی کاوش بہت شاندار ھے ۔
عبید صاحب بہت شکریہ ایک اچھی کتاب سے متعارف کروانے پر ۔ میں پہلی فرصت میں اسے پڑھتی ہوں۔