عبید اللہ عابد :
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو شاید اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار سخت مشکل کا سامنا ہے۔ پی ڈی ایم کی مجموعی سوچ کے برعکس پیپلزپارٹی کے فیصلے کے بعد مولانا کو چپ سی لگ گئی ہے کہ وہ پی ڈی ایم کو اس گرداب سے کیسے نکالیں۔ اتحاد کی ایک بڑی جماعت کا اپنے طور پر حکمت عملی طے کرنا اور فیصلے کرنا بہرحال بغاوت ہی کی ایک شکل ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی مجلس عاملہ کے اراکین نے گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمان کی بینظیر بھٹو کی برسی میں غیرموجودگی پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقامی سیاست کے پیچھے مولانا فضل الرحمان نے بے نظیر بھٹو کی برسی چھوڑدی اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے کہنے پر ہم اسمبلیاں چھوڑدیں ؟ انھوں نے کہا کہ ڈکٹیشن نہیں چلے گی۔
شرکاء نے کہا کہ اگر سابق وزیر اعظم نواز شریف وطن واپس آکر لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہیں تو استعفوں پر غور کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پیپلزپارٹی ایسی شرط رکھ رہی ہے جو مسلم لیگ ن کے لئے قابل قبول نہیں۔ اس پر مسلم لیگ ن دو دن تک خاموش رہی، پھر شاید اتحاد بچانے کی خاطر نہ صرف مریم نواز شریف نے بلاول بھٹو زرداری کے خیالات کی تحسین کی بلکہ پیپلزپارٹی کی طرح ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان بھی کردیا۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ ن نے یہ اعلان اکتیس دسمبر کو کیا جبکہ پیپلزپارٹی اس سے بھی پہلے اعلان کرچکی تھی۔ حالانکہ کہا گیا تھا کہ ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ یکم جنوری کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں کیا جائے گا۔
اب یقیناً مولانا فضل الرحمن مزید پریشانی کا شکار ہوں گے، سوچ رہے ہوں گے اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے طور پر ہی فیصلے کرنے تھے تو پی ڈی ایم بنانے کا کیا فائدہ ! مولانا یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ دونوں بڑی جماعتوں نے ایک بار پھر ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا پے۔ اس سے پہلے دھرنا کے موقع پر بھی دونوں جماعتیں ان کے ساتھ شامل نہ ہوئیں ورنہ اب پاکستان کا سیاسی منظرنامہ کچھ اور ہی ہوتا۔
بعض لوگ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے علیحدہ ہونا چاہتی ہے، اسی لئے وہ ایسی باتیں کہہ رہی ہے تاکہ پی ڈی ایم کی جماعتیں اسے گھر سے نکال باہر کریں ، یوں پی ڈی ایم سے علیحدگی کا الزام اس پر نہیں آئے گا۔ اور پھر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کا اپنا الگ راستہ کھولے گی۔
اس وقت اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن سے بات چہت کرنا چاہتی ہے تاہم پی ڈی ایم نے اپنے اجتماعی فیصلے کے ذریعے اپنی گیارہ جماعتوں میں سے ہر ایک کو پابند کردیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ بات چیت نہیںکرے گی ، جو کچھ بھی ہوگا ، پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم ہی سے ہوگا۔
ان حالات میں جب کہ اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن سے بات چیت کرنا چاہتی ہے ، پیپلزپارٹی اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں مستقبل کی سیاست میں اپنا زیادہ سے زیادہ کردار حاصل کرنا چاہتی ہے کیونکہ اس وقت وہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، اور اگر پی ڈی ایم کا حصہ رہ کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کرے گی تو اسے بہت زیادہ حصہ نہیں ملے گا، زیادہ سے زیادہ وہی ملے گا جو اس وقت اس کے پاس ہے۔
جب پیپلزپارٹی کیک میں زیادہ حصہ لینے کے لئے کیک بانٹے والوں کی طرف دوڑ پڑی ہے تو ایسے میں مسلم لیگ ن کچھ دیر تک حیران و پریشان ہو کر پیپلزپارٹی کی دوڑ کو دیکھتی رہی، پھر اس نے بھی اس میز کی طرف دوڑ لگا دی جہاں کیک تقسیم ہونا ہے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ رہنا چاہتی ہے، آصف علی زرداری صرف یہ چاہتے ہیں کہ بالکل آخری کارڈ نہ کھیلا جائے ، اس سے پہلے والے پتے پہلے استعمال کرلیے جائیں۔ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں سے کہہ رہی ہے کہ آئو ! اکٹھے ہوکر سینیٹ انتخابات جیت لیں۔
کہا جاتا ہے اسی خیال کے حامی مسلم لیگ ن میں بھی موجود ہیں۔ مریم نواز شریف کے موقف میں تبدیلی میں ان مسلم لیگی رہنمائوں کا کردار بھی شامل ہے۔
یہ صورت حال مولانا فضل الرحن کے لئے نہایت پریشان کن ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے سخت ناراض اور اسٹیبلشمنٹ ان سے ناراض۔ مولانا سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت کے اندر اسٹیبلشمنٹ نے نقب لگائی ہے۔ اور اب وہ مولانامحمد خان شیرانی کو سپورٹ کر رہی ہے۔ اس ناراضی کے باوجود امکان ہے کہ وہ بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ہی کی راہ اختیار کریں گے، امکان یہی تھا کہ وہ یکم جنوری کو دونوں بڑی جماعتوں کے فیصلے کو پی ڈی ایم کا فیصلہ قرار دیدیں گے۔ اور پھر یہی ہوا۔
مولانا فضل الرحمن نے اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، سینیٹ سے متعلق بعد میں فیصلہ کریں گے۔ اجلاس میں الیکشن کمیشن اور نیب کے دفاتر کے باہر مظاہرے کرنے اور جیل بھرو تحریک شروع کرنے پر غور و خوض کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں اس اجلاس میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے فیصلوں کی توثیق کی گئی اور انھیں پی ڈی ایم کا فیصلہ قرار دیدیا گیا۔ مولانا نے یہ بھی کہا کہ اب فیصلہ کیا جائے گا کہ لانگ مارچ کب کیا جائے گاا اور اس کا رخ اسلام آباد کی طرف ہوگا یا راولپنڈی کی طرف۔
آج کے اجلاس کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ اپوزیشن نے اپنی جارحانہ حکمت عملی کو نرم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کا سبب شاید درون خانہ مذاکرات ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کی طرف مثبت پیش رفت ہے۔ اس ڈیل کے مطابق این آر او بہرحال ملے گا اور عمران خان بھی اپنے منصب پر فائز رہیں گے۔ وہ اس بیان سے یوٹرن لیں گے کہ ” حکومت چھوڑ دوں گا لیکن این آر او نہیں دوں گا ۔ “