مہناز ناظم :
میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
پتا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے
ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے ہم سال 2020 کو خوش آمدید کہہ رہے تھے ، آج اس کا اختتام ہوچکا ہے اور نیا عیسوی سال شروع ہوچکا ہے۔ اسی طرح ماہ و سال گزرتے چلے جاتے ہیں. ایسا ازل سے ہوتا چلا آیا ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
یہی حال انسان کی زندگی کا ہے، انسان اس دنیا میں آتا ہے اوراپنی زندگی کے مختلف مراحل، بچپن، جوانی اور بڑھاپا ، طے کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ کوئی جلدی چلا جاتا ہے اور کوئی دیر سے مگر یہاں ہمیشہ کوئی نہیں رہتا۔ یہی دنیا کا دستور ہے۔
آتے جاتے موسم بھی اسی بات کی خبر دیتے ہیں ۔ سردی کے بعد گرمی ضرور آتی ہے۔ خزاں کو آخرکار رخصت ہونا ہوتا ہے، اس کے بعد بہار ضرور آتی ہے۔ بارش کے بعد ہر طرف ہریالی ہو جاتی ہے مگر یہ ہریالی سدا قائم نہیں رہتی۔ خزاں کے موسم میں درختوں سے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ یہی حال زندگی کا ہے ۔ کبھی خوشی ملتی ہے تو کبھی غم ۔ نہ خوشی سدا رہتی ہے اور نہ ہی غم مشکل وقت گزر ہی جاتا ہے۔
” بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے“۔( القرآن)
دنیا میں مسلسل تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ حالات بھی ایک سے نہیں رہتے بقول شخصے ” ایک تبدیلی کو ثبات ہے زمانے میں“۔
یہ سب چیزیں ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اس جہان میں ہر چیز فانی اور ختم ہو جانے والی ہے۔
یہ زندگی ایک مہلت عمل ہے جو اس مہلت سے اٹھا لے وہی کامیاب ہے اور جو اس وقت کو فضولیات میں برباد کر دے یا یوں ہی کچھ کیے بغیر گزار دے وہ نقصان میں رہنے والا ہے۔
اسی بات کی خبر قرآن پاک کی سورۃ عصر میں دی گئی ہے۔
” عصر کی قسم ! انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ( نہیں) جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور حق بات کی تلقین اورصبر کی تاکید کرتے رہے“۔
وقت کا صحیح استعمال کرنے والے اپنی صلاحیتوں اور وقت کو صحیح جگہ پر لگانے والے، نیک عمل کرنے والے، دوسروں کے کام آنے والے ہی کامیاب ہیں۔ وقت تو گزر ہی جاتا ہے کوئی عمل کیا جائے یا نہ کیا جائے مگر انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں خدا ترسی کا رویہ اختیار کرتی ہیں، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتی ہیں ، حق اور انصاف کی راہ پر چلتی ہیں ، اپنی صلاحیتوں اور محنت کا استعمال اچھے اور نیک مقاصد کے لئے کرتی ہیں وہی انقلاب لاتی ہیں۔
اس کے برعکس خدا سے پھرے ہوئے لوگ اوراللہ کے نافرمان دنیا میں فساد برپا کرنے والےشمار ہوتے ہیں اور عذاب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ شاعرنے کیا خوب کہا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یہ دنیا فانی ہے یہاں کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہے گی انسان کے لئے یہ آزمائش کی جگہ ہے یہاں کیے گئے ہر عمل کا حساب قیامت کی روز خدا کےحضور دینا ہوگا۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
” اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے“۔( سورہ حشر)
زندگی کی مثال برف کی سی ہے جو رفتہ رفتہ پگھلی جا رہی ہےاور گزرتے وقت کی مثال ایسی ہے جیسےٹینکی میں بھرا ہوا پانی جسے نلکےکے ذریعے استعمال کیا جا رہا ہو، استعمال کرنے والے کو علم نہیں کب وہ پانی کب ختم ہوجائے۔ لہذا اس سے پہلے کہ مہلت عمل ختم ہوجائے اپنی منزل کے حصول کو یقینی بنانا ہی عقلمندی ہے اس کے لیے اپنی عمل کاجائزہ لیتے رہنا ضروری ہے۔
حدیث نبوی ہےکہ
” دنیا آخرت کی کھیتی ہے“۔
دنیا میں کیا گیا نیک عمل ہی آخرت میں کام آئے گا ہر گزرتا ہوا لمحہ ہمیں اپنے انجام سے قریب کر رہا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
” اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے“( سورہ انشقاق)
ایک عاقبت اندیش انسان کبھی اپنے مقصد سے غافل نہیں رہ سکتا ، وہ اپنا جائزہ لیتا رہتا ہے یہاں تک کہ محنت اور کوشش سے اپنی منزل پا لیتا ہے۔