انور جاوید ڈوگر

انور جاوید ڈوگر، ایک غیرمعمولی انویسٹی گیٹو رپورٹر کی داستان ( پہلی قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

عزیز محترم اطہر خرم انور جاوید ڈوگر کے قریبی دوستوں میں شامل رہے ہیں ، بلکہ مجھے تو یہ جان کر مسرت آمیز تعجب ہوتا ہے کہ خرم صاحب مرحوم کو اپنا استاد کہا کرتے ہیں ۔ انور کے احوال کو مجھ سے بھی زیادہ جانتے ہیں مثلاً مجھے مرحوم کے ان اخبارات کا خرم کے مقابلے میں بہت کم علم ہے جہاں انھوں نے کام کیا۔ انھوں نے بتایا:

” انور وفاق ، مغربی پاکستان، مسلم ورلڈ ، ماہنامہ مون ڈائجسٹ ‘ ہفت روزہ مون اسٹار ، روزنامہ آفاق ، روزنامہ آتش ، روزنامہ صدائے لاہور ، ہفت روزہ میڈیا سے وابستہ رہے ہیں۔“

روزنامہ صداقت میں ڈپٹی چیف ایڈیٹر تعینات رہے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب معروف پولیس افسر ، سابق آئی جی رانا مقبول ، سردار حسن اختر موکل ، احمد شجاع موکل اس اخبار کے کرتا دھرتا تھے۔ منو بھائی ایڈیٹر ، حسن نثار میگزین ایڈیٹر تھے۔ ان دنوں تیس یا اکتیس کے قریب معروف اہل قلم صداقت میں کالم لکھا کرتے تھے، ان میں سے اکثر خاصے ہم مزاج تھے ، کام کرتے کرتے تھک جاتے تو دفتر ہی میں ” محو خواب “ ہوجاتے تھے۔ اغلباً سید عباس اظہر ان مہام مدیران گرامی کے بعد ” صداقت “ میں آئے۔

غالباً 92 یا 93 میں انورجاوید صداقت “ میں قدم رنجہ فرمایا، انھیں خاصی مراعات حاصل تھیں، شروع میں ایک الگ تحقیقی رپورٹنگ کا سیل بنایا جس کے انچارج انور صاحب تھے ۔ میں قریب قریب ہر ادارے میں مرحوم کے ہم رکاب رہا ہوں۔ ان سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔

خوبیاں، خامیاں ہر انسان میں ہوتی ہیں، ہمدردی اور غم گساری ان کا طرہ امتیاز تھا۔ ایک غریب اور غمگین لڑکی کے احوال جان کر اسے اپنے گھر لے گئے۔ بھابھی نے اس کا برا بھی مانا تھا ، مگر مرحوم اپنے گھر کی ہر مائیگی کو نظرانداز کرکے اس کا سہارا بنے رہے۔ ایک روز ( غالباً آفاق کے ) دفتر میں بیٹھے تھے، ڈوگر صاحب نے یا کسی رفیق کار نے کسی حوالے سے یہ شعر پڑھا:

بیٹھے ہیں آبدیدہ، بے دم کی لاش پر
پانی وہ تب لائے جب پیاس نہیں رہی

کسی دوست نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ ” اطہر خرم! اس کے کیا مطلب سمجھے ہیں آپ ؟“

میں نے کہا کہ کوئی شوہر اپنی بیگم کی لاش پر پانی دیر سے لانے کا رونا رو رہے ہیں۔ انور جاوید ڈوگر فوراً سمجھ گئے کہ میں نے ” بے دم “ کے بجائے ” بےگم “ سمجھ لیا ہے۔ مجھے توجہ دلائی اور سب لوگ ہنس پڑے۔

اطہر خرم کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں اپنے دور میں انور جاوید ڈوگر تحقیقاتی جرنلزم کے بانی رہے ہیں۔ جناب مجیب الرحمن شامی کے روزنامہ پاکستان اور شام کے پرچے روزنامہ یلغار میں انھوں نے داتا صاحب راتیں گزار کر جو تحقیقاتی رپورٹنگ کی ، وہ انہی کا حصہ ہے۔ ریلوے سٹیشن پر قلی کا بھی شاندار کردار ادا کیا ۔ بھکاری بن کر خودساختہ ان داتا حضرات گرامی کا مذاق اڑاتے رہے ۔ اللہ تعالیٰ میرے دوست ، میرے بھائی ، میرے استاد کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

روزنامہ پاکستان کے معروف کالم نگار جناب رانا شفیق پسروری لکھتے ہیں:
انور جاوید ڈوگر اپنی طرز کے منفرد رپورٹر تھے۔ کسی معاملے کی رپورٹنگ کرتے تو ڈوب کر کرتے۔ بھیس بدل بدل کر معاملے اور مسئلے کی کھوج لگاتے اور جب تک تہہ تک نہ جاپہنچتے، رپورٹ فائل نہ کرتے۔ ریلوے سٹیشن پر ایک بھکاری کے روپ میں کئی دن دھکے کھاتے رہے اور پھر بھیک منگوں کے پورے نیٹ ورک اور حربوں کو تفصیل سے بیان کیا۔

اس طرح حضرت علی ہجویری ؒ کی قبر پر سات آٹھ روز ملنگ بن کر بیٹھے رہے اور وہاں کے مافیاﺅں کی خوب خبر لی۔ بعدازاں اوکاڑہ کے آرمی فارم کی رپورٹنگ کے لئے گئے تو مزارعین کی حالت دیکھ کر انہی کے ہوکر رہ گئے۔ انجمن مزارعین بنائی، احتجاج کی نیو ڈالی۔ ”طاقت وروں“ کو للکارا اور بار بار جیل کی ہوا کھائی۔

” طاقت وروں “ نے جھکانا چاہا مگر جھکے نہیں، بکے نہیں۔ ایک پر ایک کئی کیس بنتے چلے گئے مگر جتنے کیس بنتے، انور جاوید ڈوگر اتنے ہی ڈٹتے ۔ انہی چکروں میں وہ ایک روز دل کے سامنے ہار گئے اور خاموشی سے اپنے حقیقی مالک کے پاس روانہ ہوگئے۔( اناللہ وانا الیہ راجعون)

جیلوں سے کچھ رہائی ملی تو ایک روز ( روزنامہ پاکستان کے ) دفتر آئے، ساتھ کم عمر بیٹی بھی تھی، کہنے لگے” میں چاہتا ہوں یہ صحافی بن جائے تاکہ جب میں جیل جاﺅں تو کم ازکم میرے پیچھے کوئی آنے والا تو ہو۔ معصوم بچی اپنے باپ کے ساتھ آ تو گئی تھی مگر ہر ایک کو حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔ شامی صاحب نے بچی کو قومی ڈائجسٹ والوں کے ساتھ کردیا۔ جہاں اس نے بزرگوں کی سرپرستی میں قلم پکڑ کر چلنا شروع کیا۔ مختلف موضوعات پر فیچر اور افسانے لکھے، جو ڈائجسٹ میں شائع ہوگئے مگر بچی تو بچی ہی ہے۔ فی الحال وہ انورجاوید ڈوگر کی جگہ لینے سے تو رہی۔

انورجاوید ڈوگر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ پیچھے کم عمر بچے چھوڑ گئے یا وہ ” طاقت ور“ جو زندگی میں انورجاوید کے پیچھے پڑے تھے۔ ان کے مخالفین نے زندگی میں بھی ڈوگر گھرانے کے لئے کوئی آسانیاں نہ رہنے دی تھیں، موت کے بعد بھی اس گھرانے کو مشکلات میں مبتلا کردیا۔ کل انورجاوید ڈوگر کی معصوم بچی دفتر آئی۔( یاد رہے کہ رانا شفیق پسروری کا یہ کالم 16جولائی 2004ءکو شائع ہوا تھا) میں نے پوچھا:

” بیٹا ! کیا حال ہے؟“

تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں چپ ہوگیا کہ شاید بچی کو مرحوم باپ یاد آگیا ہے۔ چند لمحوں بعد اس نے بتایا۔
” اوکاڑہ پولیس والے میرے چھوٹے بھائی شہباز کو پکڑ کر لے گئے تھے۔ چار روز کے بعد بڑی مشکل سے اس کی ضمانت کرائی ہے۔“

میں نے حیرانی سے پوچھا۔ پولیس نے اس کو کس جرم میں پکڑا تھا؟
کہنے لگی:” جرم کوئی نہیں تھا، وہ تو ابھی چھوٹا ہے۔ اس نے کیا جرم کرنا ہے۔“
میں نے پوچھا:” پھر پکڑا کیوں؟“

کہنے لگی:” پولیس والے کہتے تھے، انور جاوید ڈوگر کو پیش کرو تو اس کو چھوڑ دیں گے۔“
میں نے پوچھا :” جب گرفتار کررہے تھے تو آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ انور جاوید ڈوگر تو فوت ہوچکے ہیں، کہاں سے پیش کریں؟“

بچی کہنے لگی:” ہم لوگ سو رہے تھے، پولیس والوں نے کھڑکی میں سے گھس کر اس کو پکڑا اور کھینچتے ہوئے گاڑی میں ڈال کر چلے گئے ، جاتے جاتے کہہ گئے کہ انور جاوید ڈوگر کو پیش کردو تو اسے چھوڑ دیں گے۔ پھر وہاں وہ شہباز سے کہتے رہے کہ تم بتاﺅ انور جاوید ڈوگر کہاں ہوتا ہے، گھر کب آتا ہے یا تم لوگ اس کو کہاں ملتے ہو؟

بچی نے بتایا کہ جب ہم نے اوکاڑہ پولیس سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ فوت ہوچکے ہیں، ان کی وفات کی خبریں اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں، آپ اردگرد کے لوگوں سے پوچھ لیں ، ہم انھیں کس طرح پیش کریں؟ “ تو اس پر اوکاڑہ پولیس والوں نے کہا کہ آپ ثبوت لائیں۔

چنانچہ ہم اخبارات اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ لے کر گئے لیکن ہمارے جانے سے پہلے ہی انھوں نے شہباز کو چرس برآمدگی کے جرم میں جیل بھیج دیا ہوا تھا۔ ہم نے ان سے کہا :

” پہلے آپ ڈوگر صاحب کا پوچھتے اور ثبوت مانگتے تھے، اب آپ لوگوں نے یہ کردیا کہ معصوم لڑکے کو چرس کا ملزم بنا کر جیل بھیج دیا تو جواب ملا:
” اب آپ عدالت میں جائیں اور وہاں سے ضمانت کرائیں۔“

” ہم نے اوکاڑہ عدالت سے شہباز کی ضمانت کرائی۔ ضمانت تو ہوگئی ہے مگر کیس باقی ہے اور معلوم نہیں کب تک چلے۔ ہم لوگ لاہور رہتے ہیں، اب ہر پیشی پر اوکاڑہ جانا پڑے گا۔“

انور جاوید ڈوگر خود تو کئی سزائیں بھگت کر مالک حقیقی کے پاس چلے گئے لیکن اب ان کے پیچھے ان کے معصوم بچوں کو ان کے ” جرم خودی “ کی سزا ملنا شروع ہوگئی ہے۔ اے کاش ! ڈوگر کے بچوں کا تعلق کسی بڑے گھرانے سے ہوتا تو باقاعدہ مجرم ہونے کے باوجود ان میں سے کسی کو کوئی نہ کوئی اعلیٰ عہدہ مل جاتا۔
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں