زارا مظہر :
نہ میں کبھی دین کی داعی رہی ہوں نہ خود کو اس قابل سمجھتی ہوں کہ یہ بھاری ذمہ داری اٹھا کر رہنمائی کا دعویٰ کر سکوں ۔ اگر پانچ نمازیں پوری ہوجائیں تو بے بہا طمانیت نصیب ہوجاتی ہے لیکن اتنا سمجھتی ہوں کہ دین ہے تو دنیا ہے دنیا ہے تو دین ہے ۔
ہماری بہت ساری قابلِ احترام بہنیں فیس بک پہ ایکٹو ہیں ، ایک وسیع حلقہ ہے جو ان سے رہنمائی لیتا ہے اور انہیں فالو کرتا ہے ۔بلاشبہ اچھا کام کر رہی ہیں ۔ بہت سی خواتین سے نکتہ نظر کا یا طریقہ کار کا اختلاف بھی ہے، کہیں قول و فعل میں شدید تضاد نظر آتا تو تنقید بھی ہوتی ہے اور بحث بھی جو جمہوری معاشرے کا حسن ہے ۔
کچھ ہم جیسیاں بھی ہیں جو دینداری کو دنیاداری سے الگ نہیں سمجھتیں اور اپنی ناقص عقل کے مطابق دین اور دنیا کو یکجا کرنے کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں کہ دنیا ہے تو دین ہے ۔۔ لیکن ہم سب اپنی اپنی جگہ عورت کا وقار قائم رکھ کر مشغول ہیں ۔ تمام ایکٹیوسٹ خواتین کو دعوت دی جاتی ہے کیا آپ نے کبھی سوچا ہے آپ اس میڈیم پر کس لیے ہیں ؟
سیاست پر بات کیجیے ، سوشل ایشوز اٹھائیے ، عورت کے جائز حقوق کو عام کیجیے ، شعر و ادب کو فروغ دیجیے ، اخلاقیات پہ بات کیجیے ۔ کچھ تو مثبت کیجیے ، نہ کہ پلیٹ میں رکھ کر خود کو ہی پیش کر دیجیے ۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ خواتین یہ وقار اپنے قدموں کی ٹھوکر سے گن گن کر رول رہی ہیں ۔ آپ اتنی کم عقل ہیں کیا ! آپ کو سمجھ نہیں آتا کہ مخلوط محفلوں کے کچھ آداب ہوتے ہیں ۔ آپ نے پروفائل کی تصویر میں کچھ بھی ٹانگ کے خود کو چھپا لیا لیکن ٹکڑوں میں خود کو پیش کر رہی ہیں ۔ عجیب و غریب ہجر کی ماری پوسٹس لگا لگا کے کوئل کی طرح وصل وصل پکار رہی ہیں ۔
معاف کیجیے گا اپنے پیروں پہ کلہاڑا چلا رہی ہیں ۔ آس کے تمام در اپنے ہاتھوں سے بند کر رہی ہیں ۔ کوئی نہیں آئے گا ۔ الٹا بدنامی کا طوق گنجلک ہوتا جائے گا ۔ سب تماشہ دیکھ کر مفت میں حظ اٹھا رہے ہیں ۔ کبھی آپ کھلی زلفوں کے ساتھ کبھی کٹی پھٹی بانہوں ، گوری گلابی کھلی بانہوں کے ساتھ دانہ ڈال رہی ہیں ، دعوت دے رہی ہیں ۔ شکاری عیار ہے بنا جال کے دانہ مل رہا ہے تو کیوں پھنسے ۔ کبھی قابو میں نہیں آئے گا ۔ مانا کہ آپ کا جسم آپ کی مرضی ۔۔۔۔
کیا آپ اپنی یہ مرضی اپنی سہیلیوں کو ان باکس نہیں کر سکتیں یا واٹس ایپ گروپ میں شئیر نہیں کرسکتیں ۔ پبلک پوسٹس پہ یہ سب کچھ فحاشی پھیلانے کے زمرے میں آتا ہے ۔ فیس بک پہ اکاؤںٹ بنا لینے سے آپ کو کوئی لائسینس مل گیا ہے کہ آپ فحاشی پھیلائیں ۔ کھلی آفرز دے اور لے رہی ہیں ۔
زمانہ کتنی بھی ترقی کر جائے عورت کتنی بھی باشعور و بااختیار ہو جائے معاشرہ اپنی پدرسری حاکمیت پر ہی چلے گا مادر پدر آزادی مسلم معاشرے میں کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہی۔ باشعور اور زندہ معاشرے میں مختلف فورمز سے اس کے خلاف مزاحمت بھی اٹھتی ہی رہتی ہے ۔ اس سوشل سرکل میں بہت سی خواتین نے بڑی مشکل سے اپنے عمل سے قائل کیا کہ عورت بھی قابل احترام ہو سکتی ہے ۔ عزت کر اور کروا سکتی ہے لیکن آپ اپنے عمل سے روز ہی اس عزت کو مٹی میں رول دیتی ہیں قدموں کہ ٹھوکروں پہ رکھ لیتی ہیں ۔ یہ لائسینس کس نے دیا آپ کو ۔۔
کیا وجہ ہے کہ کچھ عورتوں کی وال پہ وہی مرد انتہائی ادب و احترام سے پیش آتے ہیں بلکہ بے حد مودب اور کچھ پہ وہی حضرات گھٹیا ترین ذومعنی کمنٹس کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کبھی سوچا ہے اس بارے آپ نے ؟ ایسے حضرات بھی اپنی عزت دوکوڑی کی کر رہے ہیں ۔
ہم نے سوشل میڈیا پہ بڑی مشکل سے عورت کو یہ مقام دلوایا ہے ۔ خدا کے لئے اپنے اعمال سے انہیں مٹی میں نہ ملا دیجیے ۔
یہ آپ کے بر ڈھونڈنے کی جگہ ہے نہ آپ کی ازدواجی ناآسودگیاں رونے کی جگہ ۔ بر ڈھونڈنے کے لئے والدین کو توجہ دلوائیے اور ازدواجیات کے لئے اپنے زوج کی طرف رابطہ کیجیے۔ فیس بک کو تماشہ گاہ نہ بنائیے کہ مرد ہر عورت کو ایسا ہی سمجھ کر ٹریٹ کرنے لگے ۔
آپ کو شاید اندازہ نہیں آپ کی دانستہ بھولی اور سستی سادگیوں سے ہزاروں مرد آپ کو آسودہ کرنے کے لئے بے چین ہوجاتے ہیں جو سوشل میڈیا پہ ایک بڑی خرابی کا باعث ہے ۔ آپ کی خود ساختہ سادگی کے سبب ہر ایکٹیوسٹ کو اسی درجے کے ساتھ ٹریٹ کرنا شروع کر دیا جاتا ہے ۔
عورت کا وقار اور عزت سب سے اہم ہوتا ہے ۔ آپ کی پوسٹس آپ کی شخصیت کا حوالہ ہیں اس عزت کی توقیر میں اضافے کے لیے اپنا حصہ ڈالیے ۔
نوٹ ۔۔۔۔۔۔ اگر آپ ان عوارض میں مبتلا نہیں ہیں تو نظر انداز کر دیجیے، تحریر آپ کے لیے نہیں ہے ۔