جویریہ خان :
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کےعلاقے بنی گالہ میں وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ سے چند کلومیٹر دور ” شاپر پیراڈئز“ ایک منفرد کلچر کا عکاس ہے۔ یہ ایک ایسی مارکیٹ ہے جہاں تمام دکانیں خواتین ہی چلاتی ہیں اور ان کی گاہک بھی صرف خواتین ہی ہوتی ہیں۔ مرد حضرات صرف اپنی فیملی کے ساتھ ہی آسکتے ہیں۔
وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق اس مارکیٹ کا مقصد خواتین کو خود مختار بنانے کے ساتھ ساتھ خواتین خریداروں کو بھی آزادی کے ساتھ شاپنگ کا موقع دینا ہے۔ عروبہ عمران ، مینیجر ’ شاپر پیرا ڈائز‘ کا کہنا ہے کہ یہ مارکیٹ بنیادی طور پر ایسی خواتین کے لئے ہے جن کے گھر کے مرد انھیں تنہا بازار جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ انتظار کرتی رہتی ہیں کہ ان کا بھائی یا شوہر آئے تو وہ بازار جائیں لیکن اس مارکیٹ میں وہ بہ آسانی آ سکتی ہیں۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ جن سے انھیں خریداری کرنی ہے، کیونکہ وہ بھی خواتین ہیں۔ مرد دکان داروں کےساتھ خواتین ہر معاملے پر بات نہیں کرسکتیں۔ “
خواتین کی اس مارکیٹ میں کپڑوں کے سٹالز کے علاوہ سیلون ، جم اور اپنے دفاع کے لئے تائیکوانڈو کا ٹریننگ سنٹر بھی موجود ہے۔ یہ مارکیٹ گیارہ دکانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں خواتین کو ایسے ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں، جن کی بنیاد پر وہ مستقبل میں اپنا روزگار شروع کرسکتی ہیں۔
روبینہ پروین ان خواتین میں سے ہیں جنھوں نے سب سے پہلے یہاںاپنا بوتیک شروع کیا۔ وہ یہ کام دوسروں کو بھی سکھاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے:” اگر کوئی خاتون شادی ہے تو وہ مکمل طور پر شوہر پر انحصار نہیںکرسکتی، اگر حالات خراب ہوجاتے ہیں اور آپ کے پاس ہنر ہے تو آپ کاروبار کرسکتی ہیں۔ میں نے ٹیچنگ بھی کی ہوئی ہے لیکن میرے پاس ہنر تھا چنانچہ میںبوتیک شروع کیا۔ “
پاکستان میں کورونا کی وبا کے باعث لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے۔ ” شاپر پیراڈائز “ میں کام کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے معاشی دبائو کے باعث خود کو معاشی اعتبار سے مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔
روزینہ عمران ، یہاں ایک بوتیک پر ٹریننگ لے رہی ہیں، کہتی ہیں:
” دو کمائیں گے تو گھر آسانی سے چلے گا۔ کرائے کے گھر میں رہتے ہیں تو ہر کسی کا خیال ہوتا ہے کہ اپنا گھر بنالیں۔ جب دو کمائیں گے تو ایک کی آمدن سے گھر چلے گا اور دوسرے کی آمدن بچت ہوگی۔ تب ہی اپنے گھر کا سوچا جاسکتا ہے۔“
خواتین خریداروں کا کہنا ہے کہ یہاںشاپنگ کے دوران انھیں ہراساں ہونے کی فکر نہیں ہوتی جبکہ دیگر بازاروں میں ان کے ذہن میں یہ بوجھ بھی ہوتا ہے۔
ایک خریدار وردہ شاہد کا کہنا ہے کہ ” اس مارکیٹ کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہاں پر دکانیں صرف خواتین ہی چلا رہی ہیں، ان کے ساتھ ڈیلنگ میں سہولت محسوس ہوتی ہے۔ آج کل بازاروں میں ہراسانی کے بہت سے کیسز ہوتے ہیں، یہاں پر یہ مسئلہ نہیں ہے۔ “
یہاں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اس بازار کو مزید وسعت دینا چاہتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس بازار سے فائدہ اٹھا سکیں جہاںخریداروں اور دکان داروں ، دونوں کی خودمختاری کو اولین ترجیح بنایاگیا ہے۔
” شاپر پیراڈئز“ دنیا کے تمام معاشروں کے لئے ایک مثال ہے ، ایسی ہی مارکیٹیں قائم کرکے خواتین کو ہراسانی جیسے واقعات سے بھی محفوظ بنایا جاسکتاہے اور انھیں اپنے پائوں پر کھڑا کیا جاسکتاہے ۔ اس طرح خواتین اعتماد سے بھرپور خوشحال زندگی گزار سکتی ہیں۔