سمیرا غزل :
دو لوگ بہت امیر ہوں ، ان میں سے ایک غریب کی مدد کرتا ہو، مشکل پریشانی میں پھنسے لوگوں کو اپنے پیسے کی مدد سے نکالتا ہو، اپنے حق سے بڑھ کر اللہ کی رضا کے لیے دیتا ہو مگر بدلے میں کسی کو تنگ نہ کرتا ہو، کسی پر اپنا تسلط نہ جماتا ہو، اپنے پیسے کو اس لیے خرچ نہ کرتا ہو کہ لوگ خریدے جاسکیں۔
یہ شخص تو اچھا ہے ساہوکار تو نہیں ہے وہ بندوں کو اپنے پیسوں سے خریدتا تو نہیں ہے ، وہ تو دے کر بھول جاتا ہے خالص اللہ کی رضا جوئی کے لیے نیکی کرتا ہے۔
دوسرا شخص ہے جو بالکل سرمایہ دارانہ طرز پر یا کسی ہندو بنیے کی طرز پر اپنے پیسے کو خرچ کرتا ہے، دے کر احسان جتاتا ہے، مجبوریاں خریدتا ہے، کسی کی مدد کے بدلے اپنا تسلط جماتا ہے، کبھی کبھی تو پیسہ مکمل اس کا نہیں ہوتا مگر وہ جو رائج بینکاری نظام ہے اس کے تحت ادھر کا پیسہ ادھر کر کے لوگوں کے مفاد اس غرض سے پورا کرتا ہے کہ وقت پر لوگ خریدے جاسکیں،
ایسے شخص کی زد میں انقلابی آتے ہیں وہ اس کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں، ہر اصلاح کار راست رو اس کی نظر میں کھٹکتا ہے وہ اس شخص کو گرانے کے لیے اپنے چیلوں کو استعمال کرتا ہے، مجھے ایسے شخص کے لیے ساہوکار کی اصطلاح سمجھ میں آتی ہے اور پھر ایک ساہوکارانہ نظام کی جڑیں اس میں پیوستہ نظر آتی ہیں۔
میں آنکھیں کھول کر دیکھوں تو مجھے ہندوستان سے فلسطین تک ساہوکار اپنے خونی پنجے گاڑے نظر آتے ہیں،ہندو بنیے اگر بغل میں چھری لیے رام رام کہہ کر رال ٹپکاتے ہیں تو یہودی عالمی نظام کا خون آلود جھنڈا لیے اپنے پنجے میں امت مسلمہ کی گردن جکڑے نظر آتے ہیں۔
مگر جو ساہوکار آس پاس ہیں کیا وہ عمارت کا پہلا پتھر ہیں؟
انسان خریدے گئے تو انسانیت ختم ہوگئی ، مکان خریدے گئے تو گھر ٹوٹ گئے، گاڑیاں خریدی گئیں تو جوڑوں کے مریض پیدا ہوئے، ہوس کے پجاری چہار جانب ہل من مزید کے صداکار ہیں ، دنیا میں سب ہی اداکار ہیں۔
کیا یہ دنیا واقعی اسٹیج ہے؟ کیا ہم اپنا کردار نبھا رہے ہیں؟ اگر ہم یہاں محض اپنا کردار نبھانے رہے ہیں تو آئیے جانچ لیں کہ مقصد زندگی سے آشنائی بھی ہے یا نہیں؟
کشمیر اور فلسطین کو رونے والے براہ مہربانی اپنا احتساب کرلیں کہ
کہیں ہم بھی ساہوکارانہ نظام کی عمارت کا بنیادی پتھر تو نہیں؟