ڈاکٹر خولہ علوی :
محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط اول )
محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط دوم )
محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط سوم )
محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط چہارم )
محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط پنجم )
نانا جان کی وفات کے تین چار دن بعد خاندان میں ابو جان کی بزرگ ممانی اور پھر اس کے چند دن بعد ماموں کی کورونا بیماری کی وجہ سے وفات ہوگئی تھی۔ چند روز بعد امی جان کی ایک کزن کے سسر بھی فوت ہوگئے تھے۔ خاندان کےکئی افراد نے کورونا بیماری بھگتی تھی۔
خنساء کی کالونی میں بھی عید کے موقع پر کورونا بیماری پہنچ گئی تھی اور اب پھیل رہی تھی۔ کئی لوگ خصوصاً بزرگ اس کی لپیٹ میں آ کر وقفے وقفے سے زندگی کی بازی ہارچکے تھے۔
خنساء کی والدہ اور ان لوگوں پر ان سانحات نے گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ ارد گرد ہونے والی پے در پے اموات کی وجہ سے ماحول میں افسردگی اور پریشانی بسی ہوئی تھی۔
کورونا بیماری کا یہ عرصہ کہنے کو کچھ مہینوں پرمحیط رہا تھا مگر اس دوران لوگوں کے دل ودماغ میں خوف و ڈر، بے چینی و اضطراب، احتیاط، بے یقینی اور کبھی تو وحشتوں کا بھی دور دورہ رہا۔ اگر پلٹ کر دیکھیں تو اس عالمی وبا، لاک ڈاؤن، سماجی فاصلوں اور اس بیماری کے مخصوص حالات نے اپنے پیچھے بہت سے سبق چھوڑے تھے۔
لیکن پھر اس کے بعد معاشرے میں اکثر پاکستانیوں کے دلوں سے خوف و ہراس کی کیفیات کافی حد تک نکلنا شروع ہو گئی تھیں۔ وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹنا شروع ہو گئے تھے۔ فکر روزگار اور پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر بہت سے دیہاڑی مزدوری کرنے والے لوگ احتیاطی تدابیر و اقدامات کو بالکل بھی خاطر میں نہ لائے تھے۔ لیکن وہ اللہ تعالی کے حکم اور مضبوط قوت مدافعت کی وجہ سے اس بیماری سے محفوظ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستمبر کے پہلے عشرے میں ایک رات تقریباً دس بجے خنساء کی والدہ کو بڑی باجی اور خنساء کی خالہ جان کا فون آیا تھا جس میں انہوں نے اپنی امی جان کی طبیعت کی خرابی کے بارے میں بتایا تھا۔
” امی جان کی طبیعت کافی خراب ہے۔ انہیں دل کی بیماری کا مسئلہ تو پہلے سے ہے۔ اب ان کو سانس لینے میں بہت زیادہ دشواری پیش آرہی تھی۔ بلکہ ان کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ ہم انہیں فوراً مقامی ہسپتال لے گئے تھے۔
وہاں ڈیوٹی پر موجود سٹاف نے امی جان کو ابتدائی طبی امداد دی ہے۔ آکسیجن فراہم کی ہے، انجیکشن لگایا ہے، ای۔ سی۔ جی کی ہے لیکن معاملہ ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔ رات کے وقت ان کا سارا سٹاف، ڈاکٹرز اور سپیشلسٹ بھی موجود نہیں ہیں۔ لہذا انہوں نے ” شیخ زید ہسپتال “ یا ” ڈاکٹرز ہسپتال “ میں ریفر کر دیا ہے۔“ بڑی خالہ جان نے تفصیل سے بتایا ۔
” ان کی حالت اب کیسی ہے؟“ امی جان نے پریشانی سے پوچھا ۔
” پہلے سے زیادہ پریشان کن صورتحال ہے۔ اب انہیں ڈاکٹرز ہسپتال میں لے آئے ہیں اور ڈاکٹروں نے انہیں ہسپتال میں داخل بھی کر لیا ہے۔“ خالہ جان نے بتایا ۔
ایک دفعہ تقریباً دو سال پہلے بھی ان کی طبیعت اسی طرح بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ کیا اب بھی ان کی حالت ویسی ہے یا کچھ کمی بیشی ہے؟“ خنساء کی والدہ نے سوال کیا ۔
” ان کی حالت پہلے سے کافی سیریس ہے۔ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔“خالہ جان نے آگاہ کیا ۔
پھر خنساء کی والدہ، والد اور خنساء وغیرہ بھی اللہ تعالی سے امی جان کی زندگی اور شفائے کاملہ و عاجلہ کی دعائیں کرتے رہے تھے۔
پھر امی جان نے دوبارہ فون کیا۔ تو اب بڑے بھائی جان (اور خنساء کے ماموں) سے بات ہوئی تھی۔
” امی جان کی حالت اب کیسی ہے؟ کیا وہ ہوش میں ہیں؟“
” جی۔ وہ ہوش میں آ چکی ہیں۔ معجزانہ طور پر اب ان کی حالت پہلے سے بہتر ہے۔ ڈاکٹروں نے ان کی ای سی جی کی ہے۔ آکسیجن مسلسل لگی ہوئی ہے۔ اب وہ سی ٹی سکین کر رہے ہیں۔“ ماموں جان نے تازہ معلومات فراہم کی تھیں ۔
” ڈاکٹروں نے اس وقت کون سا مسئلہ بتایا ہے؟ کون سی بیماری تشخیص کی ہے؟“ خنساء کی والدہ نے پوچھا ۔
” ڈاکٹروں نے ’ ڈبل نمونیا ‘ بیماری بتائی ہے۔
اور چودہ دن ہسپتال میں آئسولیشن میں رکھنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔“ ماموں جان نے پریشانی سے کہا۔
” کیا اب امی جان کی حالت خطرے سے باہر ہے؟“انہوں نے ایک اور سوال کیا ۔
” ابھی ڈاکٹروں نے بتایا نہیں۔ اور انہیں آکسیجن بھی لگی ہوئی ہے۔“ بڑے ماموں جان نے بتایا ۔
” کیا ڈاکٹر کورونا کیس بتا رہے ہیں؟“ خنساء کی امی نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا۔
” جی ہاں!“ ماموں جان نے جواب دیا۔
” اب آپ لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟“ انہوں نے پوچھا ۔
” ہم آکسیجن سلنڈر کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر سلنڈر مل گیا اور ڈاکٹر چھٹی دینے پر آمادہ ہوگئے تو امی جان کو ڈسچارج کروا کر گھر لے جائیں گے۔ ان شاءاللہ۔“ ماموں جان نے بتایا ۔
” بالکل صحیح۔“ انہوں نے بھائی کی تائید کی۔
” باقی ٹریٹمنٹ گھر جاکر کریں گے اگر اللہ کو منظور ہوا تو۔ ان شاءاللہ۔ امی جان اب ہسپتال میں گھبرا رہی ہیں۔“ ماموں جان نے جواب دیا ۔
” کووڈ 19 کا پھیپھڑوں پر کتنا اثر ہوا ہے؟“ امی جان نے استفسار کیا ۔
” ابھی تو پھیپھڑوں پر اثر ابتدائی مراحل میں ہے۔ آکسیجن سلنڈر کی فراہمی کی صورت میں گھر میں آسانی رہے گی ان شاءاللہ۔“ ماموں جان نے نمونیا کی کنڈیشن واضح کی ۔
” ڈاکٹروں نے ہماری ذمہ داری پر ڈسچارج کر ہی دیا ہے بلکہ ہم نے زبردستی فارغ کروا لیا ہے۔اب آکسیجن سلنڈر کا انتظام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔لیکن فی الحال ابھی کچھ نہیں ہوا۔“ تین چار گھنٹے بعد چھوٹے ماموں جان نے بتایا ۔
” امی جان کی طبیعت بہت بہتر ہے۔ ہسپتال سے گھر منتقلی کا ہمارا فیصلہ درست رہا ہے۔ الحمد للّٰہ۔ “ چند گھنٹوں بعد ماموں جان نے بتایا ۔
پھر خنساء وغیرہ اپنی نانی کی عیادت کے لیے اسی دن روانہ ہو گئے ۔ وہاں نانی جان کو دیکھ کر اور ان سے مل کر ان کی تسلی ہوگئی کہ وہ اب رو بہ صحت تھیں۔ گھر میں ان کے کمرے میں ہمہ وقت آکسیجن سلنڈر، وزن کرنے والی مشین، بی۔پی اپریٹس، شوگر چیک کرنے کے لیے مشین، نیبولایئزر کے علاوہ فرسٹ ایڈ ٹریٹمنٹ کا سارا سامان موجود رہتا ۔ اور ان کا ایک ڈاکٹر نواسا (اور خنساء کا ایک کزن) وقتاً فوقتاً ان کا چیک اپ کرتا رہتا تھا۔
” اگر کسی کے پاس صحت و تندرستی کی دولت موجود ہے تو گویا وہ دنیا کے رئیسوں میں شامل ہے۔ کووڈ 19 نے انسانی صحت کے معاملات کو سب سے بڑا معاملہ بنا دیا ہے۔ قوت مدافعت سے لے کر اینٹی باڈیز تک کے الفاظ اب روزمرہ گفتگو میں شامل ہو چکے ہیں۔“ خنساء کے ابو جان نے بچوں کو نانی جان کے گھر سے واپسی کے بعد صحت مند زندگی کی اہمیت کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے بتایا ۔
” معیارِ زندگی کی پہلی ترجیح صحت ہونی چاہیے۔ اور صحت و تندرستی صرف دوا اور علاج معالجے کا نام نہیں بلکہ متوازن غذا، مناسب ورزش، اور اعتدال و توازن کا نام بھی ہے۔ اور صحیح بات تو یہ ہے کہ جوانی کی محنت ومشقت اور کھایا پیا بڑھاپے میں کام آتا ہے۔ بڑھاپے میں تو انسان نے اپنی بزرگی اور بیماری کی وجہ سے تھوڑا بہت ہی کھانا پینا ہوتا ہے۔“ خنساء کی والدہ بولیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کے ممالک خصوصاً مغربی ممالک میں کورونا بیماری اپنے عروج پر تھی۔ کورونا مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔
” امریکہ اور برطانیہ میں ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کو بیماری کی چیکنگ کے لیے ٹیسٹ کی تاریخ کئی دن بعد ملتی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کورونا مریض بہت زیادہ ہیں اور ڈاکٹر باری آنے پر ان کا ٹیسٹ کرتے ہیں۔ اور مریضوں کی بڑھتی ہوئی اس صورتحال کو بڑی مشکل سے ہینڈل کر رہے ہیں۔ اس لیے کورونا مریضوں کو اتنے دن بعد ٹیسٹ کی تاریخ ملتی ہے۔“ یوکے میں مقیم ایک کزن آپی افرح نے بتایا۔
” اس کے علاوہ ہسپتالوں میں داخل ہونے والے کورونا مریضوں کے لیے بھی کافی مشکلات ہوتی ہیں۔ علاج معالجہ کے لیے وسائل و ذرائع کی کمی ہوتی ہے اور مریض کی تعدادزیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں ’ کوارنٹائن ‘ (آئسو لیٹ اور انڈیپینڈنٹ) کرنے کی سہولیات مکمل طور پر موجود نہیں ہیں۔ اس لیے بہت سے مریض اپنے آپ کو گھر میں ’ کوارنٹائن ‘ کر لیتے ہیں۔“ افرح آپی نے بتایا۔
” مغربی ممالک میں تو مریضوں کے لیے بہت زیادہ سہولیات ہوتی ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ “ خنساء نے اپنی سوچ کو سوال میں ڈھالا ۔
” عموماً ہمارے ذہنوں میں یہ تصور ہوتا ہے کہ مغربی ممالک خصوصاً یو۔کے اور امریکہ میں لوگوں کو علاج معالجہ کی بہت زیادہ سہولیات حاصل ہیں اور وہاں لوگوں کو ہمارے جیسی مشکلات و مسائل درپیش نہیں ہوتے۔ لیکن اب عملاً ایسا نہیں ہورہا۔
ان باتوں سے وہاں کی موجودہ صورتحال کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف برطانیہ بلکہ امریکہ دونوں میں کورونا بیماری کے حوالے سے بڑی بدترین صورتحال ہے اور ہسپتالوں میں ناکافی سہولیات ہیں۔“ آپی نے بتایا۔
” مریضوں کو چھوڑیں، ان کے پاس تو ڈاکٹروں کے لیے بھی کافی و شافی سہولیات موجود نہیں ہیں بلکہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ انہیں علاج کے دوران بعض بنیادی سہولیات بھی حاصل نہیں ہیں مثلاً ماسک، دستانے، حفاظتی کٹس وغیرہ اور مریضوں کے لیے ان چیزوں کے علاوہ کورونا ٹیسٹنگ کے لیے ٹیسٹ کٹس اور وینٹی لیٹرز وغیرہ کی بھی شدید کمی ہے۔ حکومت اور ہسپتال کورونا بیماری کے مریضوں کو سنبھالنے میں بظاہر ناکام نظر آرہے ہیں۔“ آپی نے باہر کے حالات مزید بیان کیے ۔
” مغربی ممالک میں کورونا کی بیماری اتنی زیادہ کیوں پھیل گئی ہے؟“ خنساء نے پوچھا۔
” امریکہ، یوکے اور دیگر مغربی ممالک میں کورونا کی بیماری اتنی زیادہ پھیل گئی ہے اور وہاں ہر طرف خوف و ہراس پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ اس مادر پدر آزاد اور دین بیزار تہذیب میں لوگ بہت زیادہ پریشان اور مشکلات و مسائل کا شکار ہیں۔ کیونکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنے اور اس کی طرف رجوع کرنے کے بجائے مادی وسائل کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔“ آپی نے جواب دیا ۔
” لندن اور دیگر مغربی ممالک کے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کی بے چارگی اور بے بسی کے ایسے مناظر دیکھ کر افسوس ہونا فطری سی بات ہے لیکن آج ان کے ہاں جو افراتفری دیکھنے کو مل رہی ہے، شاید یہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔
وہ جو دوسروں کے ممالک میں آ کر بمباری، تباہی اور موت کے مناظر برپا کرتے رہے ہیں، تو ان کو یہ اطمینان تھا کہ ان کا اپنا ملک محفوظ ہے۔ اسی یقین کے ساتھ یہ آ کر دوسروں کے ممالک کو تاخت و تاراج کرتے رہے ہیں۔ جہاں جہاں سے ان کے منحوس قدم گزرتے رہے ہیں، وہاں لوگ بھوکوں مرتے رہے ہیں۔“ ایک بہت پیاری ماموں زاد بہن نے لندن اور یو۔کے کے ہسپتالوں میں مریضوں کی صورتحال کے بارے میں اپنا درد دل الفاظ میں سمویا ۔
” آج یہ حالت ہے کہ ان کے ہاں بے روزگاری اور غربت بڑھنے کی وجہ سے اندرونی خلفشار پھیلنے کا ڈر ہے اور کورونا بیماری نے اس قوم کی حالت غیر کر ڈالی ہے۔ باہر سے آ کر ان پر کوئی قوم حملہ نہ بھی کر پائے، تو اللہ تعالیٰ کی دوسری اندرونی مخلوق ’ کرونا وائرس ‘ نے ان پر حملہ کر ڈالا ہے، جس کی انھیں توقع نہ تھی۔“ اس بہن نے اس کا تجزیہ بھی کیا ۔
” یہ کورونا وائرس اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت ہی آیا ہے۔ اس کے حکم پر ہی کسی کو یہ بیماری لگنی ہے۔ یہ بڑھتا ہوا ٹمپریچر (یعنی گرمی) تو اس کو روکنے کا صرف ایک ظاہری بہانہ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لوگوں میں اس کو پھیلانا چاہتے تو یہ بھی ٹمپریچر (گرمی) والا معاملہ بھی کچھ اور ہوتا۔ بس یہ اللہ تعالٰی کے مقاصد کو پورا کرنے آیا ہے۔“ ایک اور کزن نے کورونا وائرس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ۔
” یو۔کے کے ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کی بہت بری صورتحال ہے۔ مریضوں کو چھوڑیں، ان کے پاس تو ڈاکٹرز کے لیے بھی شافی و کافی سہولیات نہیں ہیں بلکہ بعض بنیادی سہولیات بھی نہیں ہیں مثلاً ماسک، دستانے، حفاظتی کٹس وغیرہ اور مریضوں کے لیے ان چیزوں کے علاوہ کرونا ٹیسٹنگ کے لیے ٹیسٹ کٹس اور وینٹی لیٹرز وغیرہ کی بھی شدید کمی ہے۔ مریضوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ ہے کہ حکومت اور ہسپتال اس کو صحیح طریقے سے manage نہیں کر پا رہے۔ یہاں حکومت کورونا بیماری کے مریضوں کو سنبھالنے میں بظاہر ناکام نظر آرہی ہے۔“ خنساء کو یاد آیا کہ امریکہ میں مقیم چھوٹی خالہ جان نے بھی یہ باتیں بتائی تھیں جن کی تقریباً ساری فیملی کورونا بیماری میں مبتلا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
سعودیہ عرب میں کورونا وائرس کی وجہ سے صورت حال بڑی نازک اور حساس رہی تھی۔
خانہ کعبہ میں پہلے طواف روک دیا گیا تھا۔ ملک کی تمام مساجد بند کردی گئی تھیں۔ ماسوائے مسجد حرام اور مسجد نبوی کے اور نماز جماعت پر پابندی لگادی گئی تھی۔ عمرہ پر پابندی لگادی گئی تھی۔ اور عمرہ فلائٹس کے علاوہ بیرونی دیگر تمام فلائٹس بھی بند کر دی گئی تھیں۔
سعودی عرب میں بھی کورونا وائرس کی وجہ سے مکہ اور مدینہ کے علاوہ دوسرے سب شہروں میں جزوی کرفیو لگا دیا گیا تھا پھر وقت کے ساتھ کچھ شہروں کے چند حصوں میں مکمل کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ پھر رمضان المبارک میں مساجد میں تراویح کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
” متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی تمام ریاستوں میں تقریباً سعودی عرب جیسی صورتحال تھی۔ آئسولیشن اور سوشل ڈسٹینسنگ پر بہت زیادہ زور دیا جارہا تھی۔ قرنطینہ سینٹر قائم کیے گئے تھے۔
ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کو خصوصی توجہ دی جاتی رہی اور ان کو سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔
تمام ریاستوں میں ہر جگہ لاک ڈاؤن اور پھر کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔
حکومت نے تقریباً دس ہزار غیر ملکی ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے فارغ کر دیا تھا۔“
” آسٹریلیا میں بھی صورتحال پریشان کن رہی تھی۔ آئسولیشن اور سوشل ڈسٹینسنگ پر بہت زیادہ زور دیا جارہا تھا۔ بوقت ضرورت اور حسب ضرورت قرنطینہ سینٹرز قائم کیے جا رہے تھے۔ ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کو تسلی بخش سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں کی جارہی تھیں۔“
پاکستان میں کورونا وائرس کے بارے میں مختلف گروہ اپنا اپنا نقطہ نظر رکھنے والے ہیں۔ پاکستان میں حکومت بہتر طریقے سے مریضوں کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ الحمدللہ
اس کے علاوہ پاکستانیوں کا مدافعتی نظام (Immune system) بھی الحمداللہ مضبوط ہے۔ پاکستان میں گرم آب وہوا کا بھی بہت فرق ہے۔ لہذا برطانیہ اور امریکہ کی نسبت پاکستان میں بہت کم کیسز سننے اور دیکھنے میں آرہے تھے۔
تاہم کچھ لوگ یہ رائے بھی رکھتے تھے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کم نہیں تھے بلکہ نظر کم آتے تھے کیونکہ یہاں ٹیسٹ کم کیے گیے تھے۔ لہٰذا معلوم نہیں ہوتا کہ اصل تعداد ہے کتنی؟ اور ویسے بھی یہاں نوجوان طبقہ بڑی تعداد میں ہے۔ اسے کورونا کی بیماری لاحق ہو بھی جائے تو اکثریت کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کورونا وائرس کی بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ کیونکہ نوجوان طبقہ پر اس کا کم اثر ہوتا ہے۔ تاہم نوجوان ہی اپنے بے احتیاطیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ اس بیماری کو پھیلانے کا سبب (Carrier) بنتے ہیں۔
جب افریقہ کے ایک ملک Burundi کے وزیر صحت سے پوچھا گیا تھا کہ
” آپ کے ہاں کورونا وائرس کے کیس اتنے کم ہونے کی کیا وجہ ہے؟“
” اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ٹیسٹ کٹس ہی نہیں ہیں۔ کٹس نہیں ہوں گی تو کورونا کے اعداد و شمار بھی کم ہی ہوں گے۔“ وزیراعظم نے جواب میں کہا تھا۔
شاید یہ معاملہ اور بھی بہت سارے ممالک کے ساتھ ہو!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔
تاہم اس بارے میں ایک اور نقطہ نظر بھی ہے۔ وہ یہ کہ
ابتدا میں پاکستان میں درحقیقت کورونا وائرس کے اتنے کیسز نہیں تھے جتنے حکومت ظاہر کر رہی تھی۔“ بعض لوگ یہ رائے رکھتے تھے۔
” کیوں؟“ دوسرے لوگوں کا ان سے یہ اہم سوال ہوتا تھا۔
” بیرونی امداد اور فنڈز نیز دیگر بین الاقوامی فوائد حاصل کرنے کے لیے۔“ اس نظریہ کے حامل لوگ یہ جواب دیتے تھے۔
بلکہ پاکستان میں جب کورونا بیماری کا آغاز ہوا تھا تو اس وقت یہ لطیفہ زبان زدعام ہوا تھا کہ
” حکومت کورونا کے مریض ڈھونڈتی پھر رہی ہے اور مریض مل نہیں رہے۔“ اور لوگ ایک دوسرے سے یہ بات کہتے تھے۔
واللہ اعلم.
2 پر “محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط ششم )” جوابات
دلچسپ تحریر پڑھنے میں مزا آیا
ماشاءاللہ بہت خوب۔ دلچسپ تحریر ہے۔ پڑھنے میں مزا آیا ہے۔ اگلی قسط کا انتظار رہتا ہے۔