عبید اللہ عابد :
میں نے آج ایک تصویر دیکھی، کئی ہاتھ قیدخانے کی سلاخوں سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ یہ چند انسانوں کے ہاتھ ہیں جنھیں چند دیگرانسانوں نے قید کر رکھا ہے۔ کتنا درد بھرا منظر ہے یہ۔ جن لوگوں نے قیدخانے کی سلاخوں سے ہاتھ نکالے ہوئے ہیں، ان میں سے کسی پر ایک دوسرے انسان کو قتل کرنے کا الزام ہے، کسی انسان نے دوسرے انسان کے ہاں سے کچھ چوری کیا ہوگا اور کوئی انسان محض کسی جھوٹے الزام ہی کی بنیاد پر قید ہوا ہے۔
میں نے آج صبح ہی ایک انسان کی کہانی پڑھی جو قتل میں معاونت کے الزام میں پندرہ برس جیلوں گلتا سڑتا رہا اور پھر عدالت کو معلوم ہوا کہ وہ تو بے گناہ ہے ۔ اب اس انسان کی زندگی کے قیمتی پندرہ برس کون لوٹائے گا جب کہ اس دوران میں اس کی ماں ، بہن اور بیوی کا انتقال ہوگیا۔
کتنا آسان ہوتا ہے ایک انسان کو شک کی بنیاد پر قیدخانے میں ڈال دینا، وہاں اس پر بدترین تشدد کرتے رہنا اور پھر ایک ، دو ، تین ، چار نہیں، پانچ ، چھ ، سات اور آٹھ بھی نہیں، نو ، دس ، گیارہ ، بارہ ، تیرہ ، چودہ ، پندرہ برس تک قید خانے میں بدترین زندگی اس پر مسلط کرنا ۔۔۔۔۔۔ کتنا آسان ہے!!! اور پھر منصفوں کے لئے یہ کہہ دینا بھی کتنا آسان ہے کہ ” تم بے قصور ہو ، جائو! تمھیں بری کیا جاتا ہے ۔“
تین سال پہلے ایک عدالت نے اٹھارہ برس بعد ایک عورت سے کہا کہ ” تم بے قصور ہو، جائو ! تمھیں بری کیا جاتا ہے۔ “
اس عورت پر الزام تھا کہ اس نے شوہر کو قتل کیا ہے۔ وہ دہائیاں دیتی رہی کہ وہ بے قصور ہے ، اس نے قتل نہیں کیا لیکن پھر بھی چند انسانوں نے اسے قیدخانے میں جکڑے رکھا۔ کتنا آسان ہوتا ہے کسی عورت کو قیدخانے میں ڈال دینا اور پھر اس کے ساتھ ویسا سلوک کرنا جسے سوچنا بھی نہایت اذیت دیتا ہے۔
میں نے پڑھا ایک شخص کو عدالت نے انیس برس بعد باعزت بری کردیا ، عدالت کو انیس سال بعد پتہ چل گیا تھا کہ وہ تو بے گناہ تھا۔ جب عدالت فیصلہ سنا رہی تھی، اس وقت وہ ملزم کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھا، معلوم ہوا کہ چند سال پہلے جیل میں گلتے سڑتے اس کا انتقال ہوگیا تھا۔
جن منصفوں کو پندرہ ، اٹھارہ ، انیس سال بعد پتہ چلے کہ وہ جس انسان پر مقدمہ چلا رہے ہیں، وہ بے گناہ ہے تو ایسے منصفوں سے باعزت رہا ہونے والے قیدی کو کہنا چاہئیے کہ کاش! آپ کو ایک دن قیدخانے میں رہنا پڑے تاکہ آپ کو بھی بے گناہ قید رہنے کی اذیت کا احساس ہو!! لیکن وہ قیدی یہ نہیں کہے گا ، اسے اندازہ ہے کہ اس نے یہ بات کہہ دی تو اسے پھر سے مار مار کے قیدخانے میں ڈال دیا جائے گا۔
سنا ہے کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ ہوتی ہوگی ماں جیسی ، کسی دوسری دنیا میں لیکن اس دنیا کی بعض ریاستیں ڈائنیں ہوتی ہیں جو اپنے ہی بچے کھا جاتی ہیں، اس دنیا کی بعض ریاستیں سوتیلی ماں جیسی ہوتی ہیں، ان ریاستوں میں بعض انسان دوسرے انسانوں کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں لیکن وہ قید نہیں ہوتے، لیکن بعض انسان صرف شک کی بنیاد پر قیدخانوں میں جکڑ دیے جاتے ہیں۔ وہ پندرہ ، اٹھارہ ، انیس برس قیدخانوں میں گزار دیتے ہیں، اور قید خانوں ہی میں مر جاتے ہیں۔
ایسی ڈائن ریاستوں میں ججوں سے پوچھا جاتا ہے نہ تفتیش کاروں سے کہ تمہیں پندرہ ، اٹھارہ ، انیس برس بعد کیوں پتہ چلا کہ یہ انسان بے گناہ تھا؟؟ ان ڈائن ریاستوں میں یہ تو توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ پندرہ ، اٹھارہ ، انیس برس بعد بے گناہ قرار دیے جانے والے فرد کو ازخود ہرجانہ ادا کرے گی، اس کے نقصان کی تلافی کرے گی، ان ججوں ، تفتیش کاروں کے پراویڈنٹ فنڈ سے چند لاکھ روپے نکال کر اس بے گناہ کو دیدے گی۔
کیا توقع کی جاسکتی ہے ایسی ڈائن ریاستوں سے؟؟؟؟؟؟