عطیہ ظفر / راولپنڈی:
اسلامی کیلینڈر کے مطابق نئے ہجری سال کا آغاز محرم الحرم سے ہوتا ہے جبکہ نئے عیسوی سال کا آغاز جنوری سے ہوتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 31دسمبر کا سورج غروب ہوتے ساتھ ہی نیا سال شروع ہو جاتا ہے اور ہر جانب جشن کا سماں ہوتا ہے۔
سماجی اجتماعات، رات گئے دعوتیں، خاندانی اجتماعات، آتش بازی، رقص اور کھانے وغیرہ کی محفلیں سجتی ہیں ۔ بڑھ چڑھ کر لوگ نئے سال کےلیے پیسہ لگاتے ہیں حالانکہ اس طرح کے مواقع پر محفلیں سجانے کا کوئی ثبوت قرآن مجید سے نہیں ملتا بلکہ اس سلسلے میں قرآن مجید میں ہماری رہنمائی کی گئی ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ (رحمان کے بندے وہ ہیں ) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے ہیں یعنی جہاں ناحق اور ناجائز کام ہو رہے ہوں اللہ کے نیک بندے ان میں شامل نہیں ہوتے اورجب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں یعنی لغو اور بے ہودہ کام میں شریک نہیں ہوتے ہیں بلکہ برے کام کو برا سمجتے ہوئے وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں(سورہ الفرقان )
کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ اس طرح کا جشن کبھی نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے منایا ؟ کیا صحابہ کرام نے آپس میں ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دی ؟ کیا تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں اس رسم کو منایا گیا ؟ خلفائے راشدین اور دیگر مسلمان حکمرانوں نے اسی طرح کی جشن کی محفلوں میں شرکت کی؟
لیکن ہمارے ہاں سال نو کی تقریبات میں بہت زیادہ اخراجات ہوتے ہیں ۔ جتنی فضول خرچی ہورہی ہوتی ہے ، کیا اس پیسے سے غریبوں کی مدد نہیں کی جاسکتی ؟ یہ بات دل کو لگتی ہے لیکن عمل کوئی بھی نہیں کرتا ۔
نیا سال شروع ہوتے ہی ہماری خواہشات نئی ہوں گی لیکن ہم یہ بات نہیں سوچتے ہیں کہ ہم نے گزرے سال میں کیا کیا ؟ کیا کھویا کیا پایا ؟ کسی ضرورت مند کی مدد کی ؟ کس کی دل آزاری تو نہیں کی؟ ماں باپ کی خدمت ؟کوئی ایسا نیکی کا کام ؟ جو ہم کر سکتے تھے اور جان بوجھ کر ہم نے چھوڑدیا ؟ اپنا محاسبہ کریں۔ کیا بدی کی راہوں پر تو نہیں چلتے رہے؟ کون کون سے اچھے کام انجام دیے اور کون سے برے کام چھوڑے ؟
حدیث میں آتا ہے کہ تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اگر ہم نے یہ تمام کام اس گزرے سال میں نہیں کیے تو آنے والے نئے سال یہ تمام کام کرنے ہوں گے ، اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہونا ہے ان کو سدھارنا ہوگا کیونکہ یہ دنیا بہت تیزی سے بھاگ دوڑ رہی ہے، مہینے دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح سے گزر رہے ہیں ۔
ہر کوئی کہتا ہے کہ وقت ہی نہیں ملتا ۔ وقت کا تیزی سے گزرنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب جب تک زمانہ آپس میں قریب نہ ہو جائے(شب و روز کی گردش بہت تیز نہ ہو جائے )۔
اللہ تعالی نے انسان کو بےشمار نعمتیں عطا کی ہیں جنھیں شمار کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے ہیں ، انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت وقت ہے ۔ اس کی قدر کریں اور کچھ نہ کچھ کرکے جائیں کیونکہ یہ زندگی ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے۔
اس زندگی میں ایک سال کم ہونے پر خوشی نہ منائی جائے بلکہ افسوس ہونا چاہئے جس طرح کسی قیمتی چیز کے کھو جانے کا افسوس ہوتا ہے۔ اللہ کرے کہ نیا سال آئے تو امن وسلامتی ساتھ لائے۔ ہمارا پاکستان جو بہت محنتوں اور قربانیوں سے حاصل کیا گیا تھا اس میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری کا خاتمہ ہو ۔ جہالت کاخاتمہ ہو اور تمام مسلمان نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوں۔
خدا کرے کشمیریوں کی آزادی کا سال ہو وہ کشمیری جو دن رات پاکستانیوں سے آس لگائے بیٹھے ہیں، وہ کشمیری بہنیں جو آج بھی محمد بن قاسم کو آوازیں دے رہی ہیں ۔ سب نوجوانوں کےلیے دعا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہماری نوجوان نسل قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، محمد علی جوہر ،محمد بن قاسم ،عبدالستار ایدھی اور اسی طرح کی باہمت لوگوں جیسے ثابت ہوں۔ اللہ کرے آنے والے سال میں تمام مسلم امہ کے لوگ جہاں بھی دنیا کے جس کونے میں بھی ہوں ، ہر قسم کی آسمانی وارضی آفتوں سے محفوظ ہوں (امین )