اکرام عابدی عمر، صومالی نژاد پہلی باحجاب برطانوی ماڈل کی باتیں
حجاب اوڑھ کر ماڈلنگ کرنا، یہ ایک نیا رجحان مغربی دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اسی رجحان کو آگے بڑھانے والی اکرام عابدی عمر بھی ہیں، جو برطانیہ کی حجاب میں ماڈلنگ کرنے والی پہلی ماڈل ہیں۔ اکیس برس کی تھیں جب معروف فیشن میگزین ووگ نے ان کی تصویر کے ساتھ اپنے سرورق کو مزین کیا۔ واضح رہے کہ وہ 2019 میں فیشن برانڈ بربری کا چہرہ بنیں۔
تئیس سالہ اکرام عابدی عمر سویڈن میں پیدا ہوئیں، ان کے والدین صومالیہ سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ صومالی نژاد اب برسٹل میں رہائش پذیر ہیں۔
وہ کہتی ہیں :
’ میرے لیے یہ سب سے زیادہ شائستگی کی بات ہے۔ بحیثیت مسلمان شائستہ انداز ہونا سب سے اہم چیز ہے اور میں سب کو یہ دکھانا چاہتی تھی کہ آپ فیشن کے ساتھ شائستگی برقرار رکھ سکتے ہیں کیونکہ حجاب خود اسلام کی نمائندگی کرنے کے علاوہ خوبصورتی کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کے ثقافتی پس منظر اور مذہبی عقیدے نے ماڈلنگ کے کیریئر پر بہت اثر کیا ہے۔ ” مجھے اچھا لگتا ہے یہ دکھانا کہ کیسے ہر کوئی اپنا اظہار مختلف انداز میں کر سکتا ہے اور اپنا پیغام فقط اپنے کپڑوں کے ذریعے پہنچا سکتا ہے۔“
وہ کہتی ہیں کہ میرا یہ ماننا ہے کہ اس صنعت میں میرا کردار خواتین کی بااختیار ہونے کی علامت ہے کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کے پاس اپنی پسند کا لباس منتخب کرنے اور پہننے کا اختیار ہے، بشمول اس کے کہ وہ اپنا جسم ظاہر کریں یا نہیں اور ایسا کرتے ہوئے اچھا محسوس کریں۔
’میرے لیے حجاب ایک بہت ہی اہم چیز ہے چونکہ یہ شائستگی اور خوبصورتی کا عکاس ہے۔ یہ اعتماد کے ساتھ یہ بھی یاد دہانی کرواتا ہے کہ میرے پاس اپنی مرضی کا لباس پہننے کا اختیار ہے۔
’روحانی طور پر حجاب پہن کر میں خدا کے قریب محسوس کرتی ہوں اور اسلام کے ساتھ مزید جڑا ہوا محسوس کرتی ہوں اور یہ حقیقت ہے کہ گزرے برسوں میں اس میں شدت آئی ہے۔‘
جب سنہ 2018 میں انھوں نے اپنے رشتہ داروں کو بتایا کہ وہ بائیو میڈیکل سائنس کی ڈگری چھوڑ کر ماڈلنگ کو کیریئر بنا رہی ہیں تو انھیں ملے جُلے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ کہتی ہیں کہ مجھے محسوس ہوا جب دادا دادی نے ماڈلنگ کا لفظ سنا تو انھوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ ماڈلنگ کوئی اچھا کام نہیں اور اس سے وہ پریشان ہوئیں۔
’لیکن جب انھیں ماڈلنگ میں شائستہ انداز کے بارے میں بتایا گیا، جس سے اب وہ آگاہ ہو چکے ہیں اور تصاویر دیکھ چکے ہیں، تو ان کی پریشانی کم ہوئی۔‘
ان کے والد عابدی عمر چاہتے تھے کہ وہ یونیورسٹی آف ویسٹ آف انگلینڈ سے اپنا کورس یعنی تعلیم مکمل کریں۔ تاہم انھوں نے اکرام کی ماڈلنگ کی چوائس پر ان کی حمایت کی ہے۔
ان کے والد کہتے ہیں کہ ’میرے خیال سے اگر اس سے مذہبی عقائد پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو رہا تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔‘ تاہم صومالی کمیونٹی میں بہت سے ایسے لوگ تھے جنھوں نے اکرام کے کریئر کے انتخاب پر سوال کیا اور اکرام کے اہلِخانہ کو اس کی وضاحت کرنا پڑی۔
ان کے والد کہتے ہیں کہ جب ہم اپنی رسمی جڑوں کی جانب جاتے ہیں تو بزرگ اس کی اجازت نہیں دیتے کہ ماڈلنگ کی جائے یا عورتیں عوام کی نظروں میں آئیں۔
’ان کے لیے اہم یہ ہوتا ہے کہ انھیں پڑھایا جائے اور ان کے سامنے اس بات کو اجاگر کیا جائے کہ اگر تمھارے پاس اخلاقیات اور اقدار ہیں تو مغربی سوسائٹی تمھاری عزت کرے گی۔‘
حجاب پہننے والی پہلی ماڈل کے طور پر اکرام نے ماڈلنگ انڈسٹری میں اپنے جیسی دیگر خواتین کی راہ ہموار کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’نوجوان صومالی ماڈلز کو دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے کیونکہ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میری اور بھی بہنیں ہیں جن کے ساتھ میں رابطہ کر سکتی ہوں اور اپنے تجربات شیئر کر سکتی ہوں۔‘
’ہم سب ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں ایک دوسرے پر انحصار کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔‘
’ایک ایسے شعبے میں داخل ہونا جہاں حجاب دیکھا جانا کوئی عام چیز نہیں ہے یہ ان کم عمر لڑکیوں میں امید پیدا کرتا ہے جو حجاب پہنتی ہیں۔ یہ انھیں بتاتا ہے کہ کسی نسل، صنف، عمر یا مذہب سے فرق نہیں پڑتا ہر کوئی بلندی پر پہنچ سکتا ہے۔ جب تک آپ اپنی ذات کے ساتھ سچے رہیں گے۔‘
اکرام نے رولینڈ مورٹ، ٹومی ہلفگر، مولی گوڈارڈ، آئس برگ، برطانوی فیشن ڈیزائنر رچرڈ کوئن، رسیلی کوچر اور بہت سے دیگر برانڈز کے لیے کام کیا ہے۔ انھیں بربری نے ماں اور بچے کے تعلق کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی مہم کے لیے منتخب کیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ مجھے فخر محسوس ہوا ، میں اس قابل ہوئی کہ یہ دکھا سکوں کہ کیسے ماں کسی بچے کے لیے ہمت اور لیڈر شپ کا پہلا نظریہ ہوتی ہے۔
’میری ماں نے مجھے عاجزی سکھائی اور ان سے بات چیت نے مجھے اپنے عقیدے پر قائم رہنے میں مدد دی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ بچوں کے لیے یہ بہت اہم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اپنے تعلق کو محسوس کریں۔
ان کی والدہ خادرا ایگہہ کا کہنا ہے کہ اکرام بچپن سے ہی بہت قابل تھی۔ وہ ہمیشہ گانا گانا اور ڈانس کرنا پسند کرتی تھی۔
’جب ہم سویڈن میں تھے تو وہ نرسری سکول میں تھی ان کی ٹیچرز نے اس سے کہا وہ کیا فلم میں بچے کا کردار ادا کر سکتی ہے تو میں نے اسے اس کی اجازت نہیں دی ، میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ فلم انڈسٹری کے لوگوں کے ساتھ گھلے ملے اور اپنے کلچر اور مذہب سے دور ہو جائے۔‘
صومالیہ سے تعلق رکھنے والی ماضی کی سپر ماڈل ایمان اور امریکی سپر ماڈل ناؤمی کیمپبیل سے اکرام بہت متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ ٹامی ہلفیگر برانڈ کے لیے ماڈلنگ کر رہی تھیں تو انھیں اس وقت ناؤمی کیمپبیل کے ساتھ ریمپ پر چلنے کا موقع ملا جس کے باعث وہ بہت زیادہ خوش تھیں۔
’مجھے لگا کہ میں صرف اپنے آپ کو نہیں، بلکہ اپنی کمیونٹی کے لیے نمائندگی کر رہی ہوں، ایک ایسی کمیونٹی جس کے اپنے خواب ہیں، اپنی خواہشات ہیں مختلف شعبوں میں آگے بڑھنے کی امیدیں ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ وہ دیکھنے میں کیسے ہیں۔‘
اکرام عابدی عمر کے ماڈلنگ کرئیر کا آغاز دو سال قبل ہوا جب وہ برسٹل کے ایک شاپنگ سینٹر میں تھیں اور وہاں انھیں ایک ماڈلنگ کمپنی کے کاسٹنگ ڈائریکٹر نے دیکھا۔
وہی کمپنی ناؤمی کیمپبیل کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔
اکرام کہتی ہیں کہ ’بحیثیت صومالی میں اپنی والدہ اور اپنی خالاؤں سے متاثر تھی۔ ہماری ثقافت میں بہت رنگ برنگے اور شوخ رنگ کے کپڑے ہوتے ہیں اور میرے اپنے کپڑے اس ڈیزائن سے بہت متاثر ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ صومالیہ کے روایتی کپڑے کو ’ڈیراک‘ کہتے ہیں اور وہ ان کا پسندیدہ کپڑا ہے۔
اکرام کہتی ہیں کہ انھیں ’ابھی تک‘ فیشن انڈسٹری میں ان کے مذہب یا ان کی ثقافتی شناحت کے بنا پر کسی مشکل کا سامنا کرنا نہیں پڑا ہے۔
اکرام عابدی نے بتایا کہ ان کے معاہدے میں ایک شق ہوتی ہے جسے وہ ’میرے اصول‘ کہتی ہیں، جس کے تحت وہ معاہدے میں وہ حدود طے کر پاتی ہیں جو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق ہوں۔
اکرام عابدی کو سپورٹس کی مصنوعات بنانے والی معروف کمپنی نائیکی نے بھی گذشتہ سال اپنے پیراکی کے لباس کی تشہیری مہم ’وکٹری سوئم‘ میں شامل کیا تھا۔
وہ اس تشہیری مہم کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’یہ بہت اچھا تھا اور اس میں فیشن کو بھی مدنظر رکھا گیا اور حیا کا بھی خیال رکھا گیا جو کہ میرا بنیادی طریقہ ہے۔ اتنی انقلابی مہم کا حصہ بننا، وہ بھی نائیکی جیسی کمپنی کے لیے، یہ بالکل مجھ سے مطابقت رکھتا تھا۔ مسلمان خواتین کے لیے باحیا لباس تیار کرنا، بجائے اس بات کہ میں اپنے لباس کو کسی برانڈ سے منسلک کرتی۔‘
اکرام عابدی کے والد کی پیدائش جبوتی میں ہوئی تھی اور وہ اپنی بیٹی کے ساتھ سنہ 2004 میں سویڈن سے انگلینڈ منتقل ہوئے تھے۔
انھیں اپنی بیٹی کے ساتھ تعلق پر ’بہت فخر‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اکرام کو آرٹ، مہندی وغیرہ بہت چھوٹی عمر سے ہی پسند ہے اور جب وہ پانچ برس کی تھی تو اسی وقت سے وہ سٹائل، فیشن اور فوٹوگرافی کی جانب مائل تھی۔‘
اور اکرام کے کرئیر کے بارے میں بھی وہ ان کے بہت حمایتی ہیں۔
‘جب دونوں والدین پڑھے لکھے ہوں تو وہ روشن خیال ہوتے ہیں اور اپنے تجربات اپنے بچوں کے ساتھ شئیر کر سکتے ہیں۔ اسلام ایک بہت گہرا مذہب ہے اور ہماری ثقافت میں ماڈلنگ کو بطور کریئر پسند نہیں کیا جاتا لیکن بحیثیت والد مجھے اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ ہے۔ مجھے اس پر اعتماد ہے کہ وہ حدود میں رہ کر کام کرے گی۔‘
’میں نے اسے سمجھایا ہے کہ وہ خود سے محبت کرنا سیکھے کیونکہ اگر آپ خود سے محبت کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنا تحفظ کریں گے، دوسروں سے پہلے خود اپنا احترام کریں گے، اور ہم نے کوشش کی کہ اکرام کو بچپن سے ہی ایک ایسی بنیاد دیں۔‘
’آپ اپنے تجربات بتا سکتے ہیں اور کوشش کر سکتے ہیں کہ اپنے بچے کو سمجھائیں کہ کسی بھی عمل کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے اور اگر آپ کو کوئی چیز پسند نہیں ہے اور بچوں کو وہ چیز چاہیے تو کیا وجہ ہے کہ آپ اس سے منع کر رہے ہیں۔ دونوں زاویوں سے سمجھنا بہت ضروری ہے۔‘