ظفرسلطان، اردو کالم نگار

پارسا حکمران اور معتوب اپوزیشن

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ظفرسلطان :

اقتدار یا اعلیٰ عہدوں کے حصول کے بعد ہمارے ہاں عموماً اکثر لوگوں کو یہ آیت پڑھتے ہوئے دیکھا جاتا ہے
” وتعز من تشاء وتذل من تشاء“ یہ آیت پڑھ کر دراصل وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اقتدار دے کر ” عزت “ سے نوازا ہے۔

اس ضمن میں بنیادی سوال یہ ہے کہ انہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ انہیں دیا جانے والا اقتدار ” عزت “ ہے؟ وہ لوگ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ اقتدار اور حکمرانی ان کیلئے آزمائش بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

حکمرانی کے حوالے سے عام تصور یہ ہے کہ یہ خوش نصیب اور عزت مند لوگوں کو ملتی ہے، تاہم اسلام کی تعلیمات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
اے ابوذر! تم ایک کمزور شخص ہواور منصب حکومت ایک امانت ہے اور روز قیامت باعث ذلت و ندامت، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے حق کا لحاظ رکھا اور ذمہ داریاں پوری کیں۔( کنزالعمال)

وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء متعدد بار اس ” عزت ‘‘ کا اظہار کر چکے ہیں ، گزشتہ دنوں انہوں نے اپنے مخالف سیاست دانوں کو یہ کہہ کر مخاطب کیا کہ حالات نے انہیں نشان عبرت بنا دیا ہے، اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری پر انہوں نے اللہ کا عذاب اترتا دیکھا ہے، اسی طرح وہ متعدد بار نواز شریف اور آصف زرداری کا نام لے کر کہہ چکے ہیں کہ وہ خدا کی پکڑ میں ہیں۔

بندوں کو یہ بات زیب نہیں دیتی ہے کہ وہ اپنے جیسے بندوں کے مصائب اور تکالیف پر اسے عذاب الہی سے تعبیر کریں یا کہیں کہ فلاں تو اللہ کی پکڑ میں ہے کیونکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ خدا کسی کو دنیا میں تکالیف اور مصائب سے گزار کر اس کی اخروی منازل کو آسان کرنا چاہتا ہو، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جب اپنے بندہ کے ساتھ خیر کا معاملہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دنیا ہی میں جلدی سزا دے دیتا ہے اوراگر اللہ اپنے بندے کے ساتھ خیر کرنا نہیں چاہتا تو اس کے گناہوں کے باوجود اس سے دست کش رہتاہے (اس کی گرفت نہیں کرتا) پھر قیامت کے دن اس کا اسے بدلہ دیتا ہے۔ (ترمذی)

موجودہ حکمران آج جس اقتدار کو اعزاز اور شرف کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں ، ممکن ہے خداوند کی طرف سے اس اقتدار میں ہی ان کیلئے آزمائش رکھ دی گئی ہو۔ مخالفین کیلئے اللہ کے عذاب یا پکڑ کے الفاظ ادا کرنا بہت بڑے دل گردے کی بات ہے، ہر انسان اس طرح کے الفاظ کی ادائیگی کی ہمت نہیں رکھتا کیونکہ بہر صورت اس نے بھی خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے، اور اسے اپنے اعمال کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے۔

حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سابق حکمرانوں اور سیاستدانوں کا احتساب کرے، لین دین اورمالی بے ضابطگیوں پر ان کی گرفت بھی کرے لیکن اخروی معاملات کو اللہ کے فیصلے پر چھوڑ دے کیونکہ انہوں نے جو اعمال کئے ہوں گے، روز محشر اسی کے مطابق ان کے ساتھ سلوک ہو گا، عین ممکن ہے اللہ کو کسی بندے کی معمولی نیکی پسند آ جائے اور اس کی مغفرت و بخشش ہو جائے جبکہ دوسرا شخص اپنی پارسائی کے باوجود خدا کی پکڑ میں آ جائے۔

حکمرانی، اقتدار اور اعلیٰ منصب اللہ کی امانتیں ہیں، اس اعتبار سے حکمرانوں کو ہر لحظہ ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں امانت میں خیانت ہونے کے باعث وہ خدا کی پکڑ میں نہ آ جائیں، لیکن عجب کہانی ہے کہ حکمرانوں نے ببانگ دہل خود کو پارسا اور اپوزیشن کو معتوب کہنا شروع کر دیا ہے، یہ بہت بڑی بات ہے،

وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز شخص کو اس رعونت میں بات کرنا زیب نہیں دیتا ہے، موجودہ حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس اقتدار پر وہ آج نازاں ہیں، یہ اقتدار عارضی ہے، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے مخالفین کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے آج کے حکمران اس دن کیلئے جواب کی تیاری کریں جس دن ان سے امانتوں سے متعلق سوال کیا جائے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں