مولانا فضل الرحمن، امیر جمعیت علمائے اسلام

مولانا فضل الرحمن کے خلاف بغاوت ” کچل “ دی گئی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جمعیت علمائے اسلام نے اپنے چار سینئر ترین رہنمائوں کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔ ان میں رہنماؤں میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمد جبکہ خیبر پختونخوا کے مولانا گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک شامل ہیں۔ ان کا ” جرم “ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ پارٹی پالیسی کے خلاف چل رہے تھے، دوسرے الفاظ میں انھوں نے بغاوت کی جس کا جمعیت کے اعلیٰ ترین فورم نے نوٹس لیا اور انھیں پارٹی سے نکال دیا۔

نکالے جانے والے چاروں رہنمائوں کے تازہ ترین بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پارٹی میں مولانا فضل الرحمن کی ” آمریت “ کے خلاف تھے۔ مثلاً حافظ حسین احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ پارٹی کے اندر کافی عرصے سے اختلافات چل رہے تھے اور سب سے بڑا اختلاف پارٹی سے ’ایف` کو نکالنے پر ہوا۔ ان کے مطابق ہمارے خیال میں ایف کا مطلب سوائے ذاتی فائدے کے اور کچھ نہیں۔ ’ہمارے خدشات درست ثابت ہوئے اور وقت کے ساتھ ساتھ فوائد بڑھتے چلے گئے۔‘

حافظ حسین احمد کے مطابق پارٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم صدر پاکستان کے لیے انتخاب نہیں لڑیں گے مگر جب نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان سے صدارت کا امیدوار بننے کے لیے کہا تو وہ دوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ بات صرف یہیں نہیں رکی بلکہ انھوں نے اپنے بیٹے مفتی اسعد محمود کو خود ہی قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کا امیدوار بھی نامزد کر دیا۔

حافظ حسین احمد نے پارٹی قیادت پر بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کیے۔ ان کے مطابق پارٹی نے مولانا فضل الرحمان پر یہ واضح بھی کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے خلاف فوج میں بغاوت کروانا ہماری پارٹی کا بیانیہ اور پالیسی نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ اس راہ پر چل پڑے۔

حافظ حسین احمد کے مطابق پارٹی کے فیصلوں کو بھی جب نظر انداز کیا گیا اور ان پر عمل نہ ہوا تو پھر ہم نے اختلافی آواز اٹھانا شروع کر دی۔

انھوں نے کہا کہ ’اب ہم پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ہمیں شاید ’کہیں‘ سے اشارے مل رہے تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ سال آزادی مارچ سے اٹھ کر چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہیٰ کے ساتھ پنڈی میں ایک اہم شضیت سے ملنے کون گیا تھا اور پھر مارچ تک حکومت گرانے کی یقین دہانی پر آزادی مارچ کے خاتمے کا اعلان کس نے کیا تھا۔‘

حافظ حسین احمد کے مطابق اس ملاقات کی تصدیق خود پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کی ہے مگر اس اہم ملاقات سے پہلے اور نہ ہی بعد میں کسی نے پارٹی کو اعتماد میں لیا۔

حافظ حسین احمد کے مطابق ہم نے اندرونی اجلاسوں میں یہ بھی بار بار مطالبہ کیا کہ جس طرح پی ڈی ایم (حزب اختلاف کی 11 جماعتوں کا اتحاد) شفاف انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے ایسے ہی پارٹی کے اندر بھی شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ ان کے مطابق اس مطالبے کا مقصد ہی یہی تھا کہ پارٹی اصولوں پر چلے نہ کہ موروثی طور پر چلے۔

ان کے مطابق اس وقت ان کے ہزاروں سینیئر ساتھیوں کو اختلافات ہیں اور وہ پارٹی کی بقا کی خاطر چپ بیٹھے ہیں۔ ہم خود بھی کئی سال سے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔

ان کے مطابق ہم نے سوال پوچھا تھا کہ ہم کیوں کسی کے کہنے پر تحریک چلائیں۔۔ اور ایک ایسی تحریک جس کے فیصلوں کو ویٹو کرنے کا اختیار بلاول بھٹو کو حاصل ہو جبکہ نواز شریف بیماری کے نام پر 11 ماہ خود خاموش بیٹھا رہے تو پھر سوالات تو اٹھتے ہیں۔

گزشتہ دنوں مولانا محمد خان شیرانی نے کہا تھا ’مولانا فضل الرحمان خود سلیکٹڈ ہیں، وہ عمران خان کو کیسے کہتے ہیں کہ وہ سلیکٹڈ ہے، میرا ماننا ہے کہ یہ پارٹی کسی کی ذاتی جاگیر نہیں، اگر کوئی ایسا سوچ رہاہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔‘

خود مولانا شیرانی پارٹی کے اندر آزادانہ انتخابات کے قائل نہیں رہے ہیں اور وہ خود جے یو آئی بلوچستان کے چار دہائیوں تک سربراہ رہے ہیں۔

نکالے جانے والے تیسرے رہنما مولانا شجاع الملک خبیر پختونخوا کے شہر مردان سے تعلق رکھتے ہیں اور سابق رکن قومی اسمبلی ہیں۔

شجاع الملک کے مطابق پارٹی کے اندر اختلافات دس پندرہ سال سے چل رہے ہیں اور اس میں سب سے بڑی بحث طریقہ انتخاب پر ہی رہی ہے۔ ان کے مطابق جس طرح مولانا فضل الرحمان خود کو پارٹی کا سربراہ منتخب کراتے ہیں تو یہ شہنشایت تو ہو سکتی ہے مگر اس سے جمہوری اقدار کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ من پسند طریقہ انتخاب پر پارٹی کی صفوں میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔

ان رہنمائوں کا کہنا ہے کہ انھیں بغیر کسی پیشگی نوٹس کے نکالا گیا ہے۔ تاہم جمعیت علمائے اسلام کے ترجمان محمد اسلم غوری کا کہنا ہے کہ جمعیت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے قائم کردہ کمیٹی نے موقف سننے کے بعد انھیں نکالا ہے، معافی کے بعد ان کی رکنیت بحال بھی ہوسکتی ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جماعت سے خارج کیے گئے ’افراد‘ کے بیانات اور رائے کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں