قدسیہ ملک :
ہمارے معتبر استاد ہمیشہ ایک بات کہا کرتے ہیں کہ ہر انسان جو اس دنیا میں آیا ہے اپنے ممکنہ وسائل میں رہتے ہوئے کام کرتاہے۔ کوئی کم کوئی زیادہ۔ کسی کو آگے بڑھنے کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے، کوئی بہت سےوسائل ہونے کے سبب تیزی سے آگے بڑھ جاتاہے لیکن آگے جاکر ایک حد بعد اجل اس کا انتظار کررہی ہوتی ہے۔
وہ اس بات کو ہمیشہ ایک مثال کے ذریعے سمجھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کبھی شمالی علاقہ جات گئے ہوں گے۔ وہاں آپ نے درختوں کودیکھا ہے کتنے قدآور اور لمبے اور پتلے پتلےہوتے ہیں کیونکہ انہیں سورج کی روشنی لینے کے لئے بہت اونچا ہونا پڑتا ہے جبکہ میدانی علاقوں کے درخت گھنے اور چوڑے اور چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے کہ انہیں سورج کی روشنی لینے کے لئے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔
آپ سب (طالب علموں ) کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ کوئی اپنی پوری محنت کے باوجود اتنے نمبر نہیں لے پاتا اور کوئی ذرا سی محنت کرکے زیادہ نمبر حاصل کرلیتا ہے۔آپ میری کلاس میں پوری محنت سے پڑھیں گے میں آپ سے کسی کتاب سے امتحان نہیں لوں گا۔ صرف آپ کے پوری زندگی کے تجربے اور ریاضت کا امتحان ہوگا کہ اب تک جو آپ پڑھ کر آئے ہیں اس سے آپ نے کیا سیکھاہے۔
گروپ میں کسی کا پیغام پڑھا جو کچھ یوں تھا کہ کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔
کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کمپنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے ان کا انتقال ہوگیا ہے جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں CEO بنتے ہیں اور نوے سال تک حیات رہتے ہیں۔
بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اور روزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔
اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔ کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ 1 نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔ کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔
اس دنیا میں ہر شخص اپنے Time zone کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے اپنے اپنے وقت کے مطابق۔ ان سے حسد مت کیجئے۔ اپنے اپنے Time zone میں رہیں۔
انتظار کیجئے اور اطمینان رکھیئے۔ نہ ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلد۔ کسی شاعر نے کہا ہے کہ
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟
اللہ رب العزت جو کائنات کا سب سے عظیم الشان انجنیئر ہے اس نے ہم سب کو اپنے حساب سے ڈیزائن کیا ہے وہ جانتا ہے کون کتنا بوجھ اٹھا سکتا . کس کو کس وقت کیا دینا ہے. اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجئے اور یقین رکھیئے کہ اللہ کی طرف سے آسمان سے ہمارے لیے جو فیصلہ اتارا جاتا ہے وہ ہی بہترین ہے۔
اگر آپ اپنی زندگی سے کسی حد تک مطمئن ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو چند باتوں پر عمل کرنا ہوگا۔
اول ۔ اپنے ماضی سے باہر نکل آئے:
اپنے ماضی سے مکمل طورپرنکل آنا واقعی بہت مشکل کام ہے۔جبھی تو غالب نے کہا تھا
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے والوں کے پاؤں ہمیشہ غلط جگہ پڑتےہیں۔ڈگمگاتے، ہچکچاتے، لجلجاتے، سستی اور کاہل قدموں سے چلنے والے اصل مقصد فراموش کردیتےہیں۔ اپنے ماضی سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کیجئے۔ ماضی کو بھول جایئے۔جو ہوا وہی ہونا تھا۔ آپ کی کوشش کرنے سے اب وہ واقعہ،وہ کام، وہ سانحہ وہ حادثہ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ ہاں البتہ آج کا سکون و آرام برباد ہوسکتاہے۔اسی لئے ماضی میں عبرت اور سبق لینے کے علاوہ جھانکنے سے اجتناب کیجئے۔خوشیاں آپ کی منتظر ہیں۔
دوم ۔ میرے آنے کا مقصد:
اپنی پیدائش کو سوچیئے۔اپنے وجود کا مقصد تلاش کیجئے۔ سوچئے آپ نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا۔ اس دنیا میں لاکھوں لوگ آئے اور گئے۔ میرے جانے سے کیا فرق پڑےگا۔ میں جانے والا آخری نہیں ہوں۔ نظامِ دنیا مجھ سے پہلے بھی چل رہا تھا۔ نظامِ دنیا میرے بعد بھی چلتا رہے گا۔ پھر میری کیا ضرورت تھی؟ میں کیوں آیاتھا؟ اپنے لیے یا اِس دنیا کے لیے؟ اپنے لیے جینا تو حیوانی فطرت ہے۔ اوروں کے لیے جینا مقصد ہوتا ہے۔ جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ اس دنیا میں آگئے ہیں تو مقصد کے ساتھ جینا ہی اصل جینا ہےتاکہ میرا ہونا اور نہ ہونا برابر نہ ہو۔
سوم ۔ خودفریبی:
اپنے جال سے باہر نکلیے۔ ہم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ لوگ ہمیں کیا سمجھتے ہیں۔یہ زیادہ ضروری ہے۔دنیا میں لوگوں کے درمیان رہنا ہے۔اپنی ذات کے حصار سے نکلیے۔ بے شک آپ بہت خوبصورت ، حسین ، ذہین ، معاملہ فہم اور صاف گو ہیں لیکن آپ کو اپنےعلاوہ اور بھی لوگوں کو دیکھنا ہے جن میں آپ سے زیادہ یہ صفات موجود ہیں۔ آپ لوگوں میں خصوصیات کو تلاش کیجئے۔آپ کو انہی لوگوں کے درمیان رہنا ہے۔ لوگوں سے محبت کیجئے۔ یہ اسی وقت ہوسکتاہے جب آپ خود فریبی کے حصار سے باہر نکلیں گے۔
چہارم ۔ دل کی بھڑاس:
دوسروں کو بھی موقع دیجئے کہ وہ آپ کے متعلق اپنی رائے آپ کے سامنے کر سکیں۔اس سے آپ کا بہت فائدہ ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ کی بات کی اہمیت پہلے کی نسبت زیادہ اہم ہوجائے گی۔ دوسرا یہ کہ آپ لوگوں میں ہر دل عزیز ہوجائیں گے۔ایک داعی کے لئے یہ صفات بہت ضروری ہیں۔
پنجم ۔ خواہشات پر لگام:
انسان کی زندگی ختم ہوجاتی ہےلیکن خواہشات ختم نہیں ہوتیں۔عبداللہ بن مسعود سے مروی ہےآنحضورﷺنے چوکھٹا خط (چوکور)کھینچا۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکور سے نکلا ہواتھا۔اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا بہت سی لائینیں کھینچیں اورپھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ (چوکور)اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہ (بیچ کا ) خط باہر نکلا ہوا ہے اس کی امید ہے۔ چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ پس انسان جب ایک (مشکل)سے بچ نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتاہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے(بخاری)۔
ہماری چند روزہ زندگی کا یہی حال ہے۔
ششم ۔ پرسکون رہنا سیکھیں:
پرسکون رہنے کا کوئی مخصوص طریقہ سیکھنا گھبراہٹ اور پریشانی پر قابو پانے میں مفید ہوسکتا ہے۔ یہ گروپ کی صورت ، ماہرین کی مدد سے بھی، اور اس کے علاوہ کتابوں اور وڈیو ٹیپس کے ذریعے ہم خود بھی یہ طریقے سیکھ سکتے ہیں۔ اس عمل سے اس وقت صحیح فائدہ ہوتا ہے جب اسے باقاعدگی سے کیا جائے بجائے اس کے کہ صرف اس وقت کیا جائے جب انسان کسی مسئلے کا شکار ہو۔
ہفتم ۔ مستقبل کےلئےتیاررہیے:
معروف نفسیات دان ڈیل کارنیگی کی معروف کتاب ” پریشان رہنا چھوڑیئے ، جینا شروع کیجئے“ میں لکھتے ہیں ہمیں اپنی ساری کوشش ، توانائی ، ذہانت ، قوت ، جوش و خروش کو آج کے کام کو بہترین طریقے سے سرانجام دینے کے لئےصرف کردینا چاہیئے۔ یہی ایک واحد امکانی طریقہ ہے جس کے لئے ہم مستقبل کے لئے تیار ہوسکتے ہیں۔
زندگی کو گزرنا سیکھئے۔ زندگی جب تک ہے لوگوں کی مخالفت کا سامنا رہے گا۔ مخالفتیں تو زندگی ہیں۔ اس سے گھبراکر ہم اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہوسکتے۔
لیکن اس کا ہر گزیہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ہر وقت لوگوں کی مخالفتوں کے لئے کمر بستہ رہیں۔ لوگوں کو اپنا ہمنواء بنانا سیکھئے۔ ہم ایک مشن کو لےکراٹھنےوالے لوگ ہیں اعلائے کلمۃ اللہ کاعلم اٹھانے والوں کو مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ لیکن اپنوں سے شفیق اور غیروں یعنی خداکے باغیوں سے ہمہ وقت جنگ کے لئے تیار رہیے۔
ہوحلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہوتوفولاد ہے مومن
اپنی صلاحیتوں کو مہمیز دیجئے۔ دور حاضر کی ٹیکنالوجی کوخود بھی سیکھئےاور اپنی ساتھی بہنوں کو بھی سیکھنے پر ابھاریئے۔ اگر آپ اپنےخول میں بند رہے تو لوگ آپ سے کترانے لگیں گے۔اپنے اپ کو منواناہے تو زمانے کے ساتھ چلنے کا ہنر سیکھئے لیکن اپنی تہذیب ومذہب کا دامن ہاتھ سے ناجانے دیجئے۔
بقول علامہ محمد اقبال
دنیاکو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو ابھارا
پریشانی کو عذاب نہ بننے دیں آزمائش تو ہر مومن پر آتی ہیں۔
اسی لئےشاعر فرماگئے
تندئی بادمخالف سے نہ گھبرااے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچااڑانے کے لئے
اللہ ہم سب کو مصائب و آلام سے محفوظ رکھے۔اور اگرکوئی آزمائش آجائے تو اس میں سرخروئی نصیب فرمادے۔اللہ ہمیں اپنی زندگی جینے والا اور دوسروں کی خوشیوں میں خوش رہنے والا بنادے۔ آمین