قائداعظم محمد علی جناح ، عطیہ ظفر

قائداعظم محمد علی جناح‌ کا کردار

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عطیہ ظفر / راولپنڈی

گجراتی تاجر جناح پوجا کے گھر آنکھ کھولنے والے محمد علی جناح کراچی کی بندرگاہ کے قریب واقع وزیر مشن میں 25 دسمبر 1876 میں پیدا ہوئے، آنے والے برسوں میں مسلمانان ہندکے میر کارواں بن گئے اور عرصہ دراز سے استحصال میں پھنسی ہوئی قوم کو اپنی سیاسی بصیرت اور اپنی ان تھک جدو جہد ، بہترین قائدانہ اصولوں پر ڈٹے رہنے والی شخصیت نے وہ کارنامہ سر انجام کر دکھایا جو رہتی دنیا تک مسلمانوں کےلیے یادگار ہے۔

برصغیر میں ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کا وہ دیرینہ خواب تھا جو مسلمانان ہند دو صدیوں سے دیکھتے چلے آرہے تھے۔ 14اگست کو اس خواب کی تعبیر ہوئی۔ اس خواب کی تعبیر ایک فرد کی محنتوں کا نتیجہ تھی کہ پاکستان مدینہ کی ریاست کی طرح اللہ پاک کی طرف سے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم عطیہ ہے جس کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے علامہ اقبال کے خواب کو سچ کر دکھایا اور یہ صرف اللہ تعالی کی مدد قائد اعظم کی ذہانت اور طویل جدوجہد کی وجہ سے مسلمانوں کو نصیب ہوا ۔

ریاست مدینہ کے بعد پاکستان ہی وہ پہلی ریاست ہے جو اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی ۔ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران جب قائداعظم سے پاکستان کی قانون سازی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ پاکستان کی قانون سازی آج سے چودہ سو سال قبل ہو چکی ہے ۔ قائد اعظم کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کےلیے وجود میں آنے والی یہ نظریاتی ریاست اب ریاست مدینہ کی عملی تصویر ہو گی۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست پاکستان کوبھی ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی مملکت بنایا جائے تاکہ قیام پاکستان کا مقصد پورا ہوسکے مگر لمحہ فکریہ ہے کہ اس مملکت خداداد کوجس طرز پر ڈھالنے کےلیے جن سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے وہ نہیں ہورہی ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح کا شمار عالم اسلام کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جو اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قلبی و ذہنی وابستگی رکھتی تھیں، آپ برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے ایسے عظیم قائد تھے جنہوں نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو اپنے پیش نظر رکھا ، ان کے خطبات اور زندگی کے واقعات اس امر پرشاہد ہیں۔

ان کے ایک خطبے کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ اب تم سب آزاد ہو اور پاکستان میں تمہیں اس بات کی پوری آزادی ہے کہ اپنے مندروں، مسجدوں اور دوسری عبادت گاہوں میں جاکر اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادات کرو ۔ ہمارا یہ بنیادی اصول ہے کہ ہم سب ایک مملکت کے شہری اور مساوی حقوق کے مالک ہیں۔ اصول مذہب ، عقیدت اور ذات پات کے امتیاز سے بالا تر ہوکر اگر ہم سب اس اصول کو اپنا معیار بنا لیں تو مجھے یقین ہے کہ کچھ عرصے بعد ہندو ہندو نہ رہیں اور مسلمان مسلمان نہ رہیں گے۔ اس سے میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے مذہب کے نہ رہیں مطلب یہ ہے کہ سیاسی اعتبار سے اور پاکستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے سب برابر ہوں گے۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے“۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ان الفاظ کی تہہ میں وہی جذبہ کار فرما تھا جس کا اظہار تیرہ سو برس پہلے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا تھا ۔ فرمایا ’’ خدا کی نظر میں سب انسان برابر ہیں اور تم میں سے ہر ایک کی جان ومال واجب احترام ہے ، تم پر لازم ہے کہ کسی حالت میں ایک دوسرے کی جان ومال پر حملہ نہ کرو ، کسی عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں مگر صرف تقوی کی بنیاد پر، آج میں ذات ، نسل اور قومیت کے تمام اختیار کو مٹا رہا ہوں۔“

قائد اعظم محمد علی جناح تمام عمر پرامن آئینی ، جمہوری جدوجہد کی اور آئین پر سختی سے پابندی کی، انھوں نے یہ راستہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور اسوہ حسنہ سے متاثر ہو کر اختیار کیا اورکہا ہمارے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ہم پر صرف ان کی پابندی لازم ہے ۔

آئین کی بالادستی قائد اعظم کو اس حد تک عزیز تھی کہ ایک فوجی افسر کی وردی کا بٹن مروڑتے ہوئے کہا امور حکومت میں مداخلت تمہارا کام نہیں ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش منانے کےلیے اپنے قائد کے ہر فرمان کو بھی مانیں اوراپنی نسل کو بھی اپنے قائد کی روشن سیرت وکردار سے متعارف کروائیں۔ اگر ہمارے رہنماء اور قوم قائد اعظم جیسی سیرت وکردار کا مظاہرہ کریں تو ہم آج بھی سرخرو ہو سکتے ہیں ۔

اے جناح دیدہ ورتجھ پر خدا کی رحمتیں
قوم کی خاطر اٹھائیں تو نے کتنی زحمتیں


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں