قدسیہ مدثر :
ادارے کسی بھی ملک کی معیشت کی مضبوطی میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتے ہیں ۔ حکومتیں کتنی ہی مضبوط کیوں نا ہوں ان کی محتاج رہی ہیں۔ اور جس ملک کے اہم ادارے ہی خسارے کا شکار ہوں ، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ، نظریاتی سرحدیں کمزور ہو رہی ہوں ، عوام بھوک اور افلاس کا شکار ہو، حکمرانوں کے بینک اکاونٹس میں روز بروز اضافے ہو رہے ہوں ،ایسے ملک کو قابل رحم گردانا جاتا ہے ۔
پاکستان کے نامور ادارے اسٹیل ملز ، پاکستان اسٹیٹ آئل انٹرنیشنل سمیت 40 اداروں کو ختم کرنے اور بعض کی نجکاری کے لئے رواں سال جو وزیر اعظم کی جانب سے سیکرٹریز کمیٹی تشکیل دی گئی اپنے اہداف کے حصول کی طرف گامزن ہے ۔
حال ہی میں ایک اور اہم ادارہ اسی نا اہلی کا شکار ہوچکا ہے، شیخ رشید نے ریلوے کا بیڑا غرق کردیا ، اس کے بعد یہ وزارت اعظم سواتی کے ناتواں کندھوں پر ڈال دی گئی ہے جنہوں نے آتے ہی یہ بیان دیا کہ وہ ریلوے کو نہیں چلا سکتے لہزا اسے بند کر دیا جائے ۔
وہ ادارہ جو انگریزوں کی مہربانی سے بنا، اب اسے چلانا بھی ان نا اہل حکومتوں کے بس کی بات نہیں رہی۔ایک ہی سرکاری ادارہ بچا تھا وہ بھی ان نا اہلوں کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
جیوکے پروگرام ’’ آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ ‘‘ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہےکہ حکومت نقصان پر چلنے والے اداروں کو منافع بخش بنانے میں ناکام ہو گئی، حکومت خسارے کم کرنے کےدعوے کرتی رہی مگرخسارے بڑھتے رہے،
تحریک انصاف کا الیکشن سے پہلے اور الیکشن جیتنے کے بعد سب سے بڑے وعدوں میں سے ایک وعدہ سرمایہ پاکستان کا تھا، وزیراعظم نے ملائیشیا طرز پر سرمایہ پاکستان ماڈل بنانے کا وعدہ کیا تھا.نقصان کرنے والے اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کے بجائے منافع بخش بنانے کا وعدہ کیا تھا، سوا دو سال اقتدار کے بعد واضح ہورہا ہے کہ حکومت سرمایہ پاکستان کے ذریعہ نقصان کرنے والے اداروں کو منافع بخش بنانے میں ناکام ہوگئی ہے،
حکومت کی معاشی ٹیم نج کاری کے ذریعہ اور سرمایہ پاکستان کے نظریے سے ہٹ کر اداروں کو چلانے کا ارادہ رکھتی ہے،تحریک انصاف حکومت میں آنے سے پہلے اور بعد میں بھی اداروں کی نجکاری کے خلاف رہی، تحریک انصاف کا موقف رہا کہ اداروں کی نجکاری کے بجائے ان میں اصلاحات لاکر انہیں خسارے سے نکالا جائے گا،
حکومت میں آنے کے بعد تحریک انصاف نے ملائیشیا کی طرز پر سرمایہ پاکستان کمپنی بنانے کا اعلان بھی کیا، یہ کمپنی قائم تو کردی گئی مگر اس کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے رہے، اب سوا دو سال بعد واضح ہے کہ حکومت سرمایہ پاکستان کو آگے نہیں بڑھاپارہی۔
اسی طرح ن لیگ کے دور میں اداروں کے خساروں میں اضافہ ہوا، اسٹیل ملز تو ن لیگ کے دور میں بند ہی کردی گئی، تحریک انصاف کی حکومت آئی اس نے بھی دعوے کیےحکومت کی طرف سے حکومتی اداروں کو دیئے گئے قرضوں پر گارنٹیوں میں حکومت مارچ 2020ء تک 1890ارب روپے کی گارنٹیز دے چکی ہے جو جون 2019ء میں 1550ارب روپے تھیں،
ن لیگ کے آخری تین برسوں میں حکومتی اداروں کے ڈومیسٹک قرضے 458ارب روپے سے بڑھ کر ایک ہزار 68ار ب روپے تک پہنچ گئے تھے جو تحریک انصاف کی حکومت میں بڑھ کر 1397ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں, اس طرح مقامی اور بیرونی قرضہ ملا کر 2ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے،
تحریک انصاف کی حکومت اب ان اداروں کی نجکاری کی طرف جارہی ہے.اسٹیل ملز کے ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے، ن لیگ نے اسٹیل ملز 2015ء میں بند کردی تھی، تحریک انصاف کے سوا دو سال میں بھی وہ بند ہی رہی، 2016ء میں جب اسٹیل ملز کی نجکاری کی بات کی گئی تھی تو عمران خان اس کے خلاف تھے۔
اسد عمر وزیرخزانہ بنے، جب وزارت خزانہ سے موقف مانگا کہ سرمایہ پاکستان کا کیا ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم حکومتی اداروں کے لئے ایک نیا قانون لارہے ہیں، جس کا جواب تاحال نہیں مل سکا ۔
اسی طرح پہلے سے مشکلات میں گھری پاکستانی ایئر لائنز مزید مشکلات میں آگئی ہے، جب سے وزیر ایوی ایشن غلام سرور خان نے پاکستانی پائلٹس کے جعلی لائسنسوں کا دعویٰ کیا ہے تب سے نہ صرف پاکستان کی سول ایوی ایشن کو مسلسل جانچ پڑتال کا سامنا ہے بلکہ پاکستانی ایئر لائنز پر لگنے والی پابندیوں میں مزید توسیع ہوتی جارہی ہے۔
سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے نو ماہ میں سرکاری ادارے مزید 294 ارب کے مقروض ہو گئے ہیں۔ حکومت قومی اداروں کا اربوں روپے سالانہ خسارہ برداشت کرتی ہے مگر بدقسمتی سے کسی حکومت نے بھی ان اداروں کو منافع بخش بنانے کی طرف توجہ نہ دی بلکہ خسارے کو نجکاری کیلئے جواز بنایا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ ملائشیا کے مہاتیر محمد کے مطابق نجکاری سے اندرونی قدر میں اضافہ ہوتا ہے نا ہی روزگار میں۔
سیاسی اشرافیہ جان بوجھ کر قومی اداروں کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کیلئے خسارے میں لاتی ہے اور ایسا بین الاقوامی بنک ،سٹاک مارکیٹس اور مقامی حکمران خود کوفائدہ پہنچانے کیلئے کرتے ہیں اس تاثر کو اس لئے بھی یکسر مسترد کرنا ممکن نہیں کیونکہ سیاسی اشرافیہ کی اپنی ایئرلائنز اور سٹیل ملیں تو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتی ہیں مگر پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز منافع کے بجائے مزید مقروض ہوتی جاتی ہیں۔ قومی اداروں کے خسارے کی وجہ بھاری معاوضوں پر ضرورت سے زیادہ سیاسی بھرتیاں بتائی جاتی ہیں۔
پاکستان سٹیل ملز گزشتہ چار سال سے بند پڑی ہے مگر ملازمین کو تنخواہوں کیلئے قومی خزانے سے ہر سال اربوں روپے جاری کر دیے جاتے ہیں۔ اب قومی اداروں کا قرضہ 1594 ارب تک بڑھ چکا ہے۔ بہتر ہو گا حکومت قومی اداروں کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کی بجائے انھیں خودمختاری دے کر اور غیر ضروری بوجھ سے نجات دلا کر منافع بخش بنانے پر توجہ دے تاکہ یہ قومی اثاثے معیشت کیلئے سفید ہاتھی ثابت ہونے کے بجائے سہارا بن سکیں۔