انقلابیوں کے اپنے ہی دوست کاسکوں کے ہاتھوں قتل ہو جانے سے قبل چند لمحات
” قیدی کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھے تھے۔ ایک کونے میں پوٹیلکف بھی تھا۔ وہ پتلون سے کاغذ کے نوٹ نکال کر پھاڑ رہا تھا۔ اس نے کریفاشلیکف کا بازو پکڑ کر کہا:
” ہم سے دھوکا کیا گیا ہے سؤر… جب میں ابھی لڑکا تھا تو باپ کے ساتھ جنگل میں شکار کھیلنے جایا کرتا تھا۔بطخیں بیٹھی ہوئی دیکھتا تو ان پر شست باندھتا لیکن مجھ سے نشانہ ٹھیک نہ بیٹھتا اور بے حد شرمندہ ہوتا۔
یہاں بھی میں نے حالات کو خراب کر دیا ہے۔ اگر ہم راستوف سے تین دن پہلے آ جاتے تو آج موت کے منہ میں نہ ہوتے۔ہم نے حالات کی رو بدل دی ہوتی۔“
کریفاشلکیف بولا :” مارو گولی، وہ ہمیں قتل کرتے ہیں تو کر لیں۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتا اگر خوف ہے تو مجھے یہ ہے کہ دوسری دنیا میں ہم ایک دوسرے کو پہچان نہ سکیں گے فیوڈر! ہم اور تم وہاں ہوں گے لیکن اجنبیوں کی طرح ملیں گے۔”
” مذاق نہ کرو کریفا شلکیف…!“
بنچک دروازے سے لگا بیٹھا تھا اور وہ دروازے کی دراز میں سے باہر دیکھ رہا تھا۔ آج اسے ماں یاد آرہی تھی لیکن درد اور تکلیف کی چبھن نے اس کے خیالات کو کسی اور ہی طرف منعطف کر دیا۔ اسے انّا ( اس کی محبوبہ) یاد آنے لگی۔ انّا کی یاد سے اسے کچھ قرار سا آ گیا۔ اب اس کی ریڑھ کی ہڈی کا درد بھی جاتا رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ چند گھنٹوں کا مہمان ہے لیکن موت اسے پیغامبرِ سکوں دکھائی دے رہی تھی۔ ایک تکلیف دہ مسافت کا اختتام نظر آ رہی تھی۔
دور ایک کونے میں قیدیوں کا گروہ مصروفِ گفتگو تھا۔ وہ عورتوں کے متعلق ہنستے ہوئے اور افسردہ لہجے میں باتیں کر رہے تھے۔عشق و محبت کی باتیں اور دوسری عارضی خوشیوں کے تذکرے چھڑے ہوئے تھے جن سے وہ دوچار ہو رہے تھے۔ کنبوں کی باتیں، دوستوں کی باتیں اور رشتہ داروں کی باتیں ۔غرض باتیں ہی باتیں۔
برے اور اچھے گیہوں کا ذکر، گیہوں کے اتنے بڑے پودے کہ کوّا بھی ان میں سے اڑے تو دکھائی نہ دے۔۔ واڈکا شراب کی صفات۔۔!جسمانی و اخلاقی طور پر وہ سب کے سب تباہ ہو چکے تھے۔ کھڑے کھڑے بیٹھے بیٹھے اونگھ رہے تھے۔
ابھی صبح ہونے ہی والی تھی کہ ان میں سے ایک سسکیاں بھرنے لگا اور زور زور سے رونے لگا۔
معمر آدمی کا رونا، جسے آنسوؤں کی نمکینی چکھے برسوں گزر چکے ہوں، نہایت اندوہناک بات ہے۔ بے شمار آوازیں آئیں۔
” چپ رہو خدا تمھیں غارت کرے۔“
” مرد ہو یا عورت؟ “
”یہاں مرد سوئے ہوئے ہیں اور ادھروہ ہوش و حواس کھو رہا ہے۔“
مرد نے ناک پونچھی اور خاموش ہو گیا۔ سبھی سگریٹ پی رہے تھے لیکن کوئی بول نہ رہا تھا۔ ہوا بھاری ہو چکی تھی۔ اجسام کا پسینہ ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا۔
گاؤں میں ایک مرغ کی بانگ نے صبح کی آمد کا پتا دیا۔ کوٹھڑی کے باہر قدموں کی آواز سنائی دی۔
سنتری نے پوچھا ” کون ہے؟ “
” دوست ۔۔ ہم پوٹیلیکف کے آدمیوں کے لیے قبریں کھودنے آئے ہیں۔“
کوٹھڑی میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناول : اور ڈان بہتا رہا
مصنف-: میخائل شولوخوف
مترجم-: مخمور جالندھری
ناشر-: بک کارنر، جہلم