ہوسونو ہشتومی

ہوسونو ہشتومی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل :

تا زی می ( tajimi) وسطی جاپان کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ یہ شہر دوسو سال سے زائد عرصہ سے چینی کے برتنوں کی پیداوار کی وجہ سے مشہور ہے۔ سال 1976 میں اس شہر کے ایک غریب کسان کے گھر ایک لڑکی نے جنم لیا. اس کا نام ہوسونو ہشتومی (Hosono Hitomi) رکھا گیا۔ ہوسونو ہشتومی نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے ارد گرد چینی کے برتن، ٹائیلیں اور مجسمے وغیرہ بنتے دیکھے تو اسے بھی شوق پیدا ہوا کہ ان کی تیاری کے متعلق باقاعدہ تعلیم حاصل کرے۔

ہوسونو ہشتومی کا آرٹ

دوسری طرف ابتدائی تعلیم کے حصول کے دوران باپ کی مدد کیلئے کھیتوں میں بھی آنا جانا رہتا جس سے مظاہر فطرت کا خوب مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ بڑے شوق سے پھولوں، درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں کی ساخت کا مشاہدہ کرتی رہتی. اسے پنکھڑی پنکھڑی سے مل کر بنے پھول بہت بھلے لگتے۔ اسی طرح پتوں کے اندر بچھی رگوں کے نقوش بہت حیران کن لگتے۔ وہ تادیر انہیں دیکھتی رہتی جیسے فطرت کے حسن کو ذہن نشین کررہی ہو۔

ہوسونو ہشتومی کا آرٹ

ابتدائی تعلیم کے بعد اس نے چینی کی اشیاء بنانے کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کنزاوا کالج آف آرٹس میں داخلہ لے لیا۔ دوران تعلیم اس نے بطور خاص تانی ( kutani ) ثقافت اور سپرگنگ ( sprigging) کی تکنیک میں مہارت حاصل کی۔ یاد رہے کہ سپرگنگ سرامکس کے میدان ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی قسم کی ڈائی وغیرہ کو استعمال کرتے ہوئے مٹی کا چھوٹا سا ڈیزائن الگ سے بناکر کسی بڑے برتن یا گلدان پر لگایا جاتا ہے۔

ہوسونو ہشتومی کا آرٹ

جاپان سے اپنی سرامکس کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے موقع ملا کہ پہلے کوپن ہیگن اور پھر لندن کے رائل کالج آف آرٹس میں اپنے فن میں نکھار پیدا کرے۔ تکمیل تعلیم کے بعد جب عملی زندگی میں کام کی باری آئی تو ہوسونوہشتومی نے اپنے بچپن میں فطرت کے کیے گئے زبردست مشاہدہ اور سرامکس کی عملی تعلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے سرامکس کے میدان میں ایک طرح سے نئے باب کا اضافہ کیا۔ اس نے ربر کی ڈائیوں میں پورسلین کے چھوٹی چھوٹی پھول اور پتیاں بنا کر انہیں سلیقے اور مہارت سے آپس میں جوڑ کر ایسے ایسے فن پارے بنانا شروع کیے کہ دیکھنے والے کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ہوسونو ہشتومی کا آرٹ

ہوسونو ہشتومی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس نے بچپن میں کھیتوں میں وقت گزار کر سیکھا کہ پھول اور پتوں جیسے قدرت کے شاہکار راتوں رات ترتیب نہیں پاتے بلکہ انہیں وقت لگتا ہے. میں بھی اپنا کام صبر اور حوصلہ سے کرتی ہوں. میں کسی بھی کام کی تکمیل کیلئے بے صبری نہیں ہوتی۔

آپ جان کر حیران ہوں گے ہوسونو کا ایک ایک فن پارہ ہزاروں ڈالر میں فروخت ہوتا ہے۔ اس کا پھولوں سے بنا ایک چھوٹا سا پیالہ پچاس لاکھ روپے میں فروخت ہوا۔ اس طرح کئی چھوٹے چھوٹے گلدان پچیس پچیس اور بیس بیس لاکھ میں فروخت ہوتے ہیں۔

ہوسونو ہشتومی کا آرٹ

ہوسونو کو قدرت نے جو ہنر عطا کیا تھا اس نے نہ صرف اسے دریافت کیا بلکہ اس کو بڑی محنت اور چابک دستی سے اوج کمال بخشا۔ آج دنیا اس کے فن کی معترف ہے۔ سوچتا ہوں وطن عزیز میں جانے کتنی ہوسونوز قدرت کی تفویض کردہ نعمتوں کا ادراک ہی نہ کرپائی ہوں گی. یا اگر انہیں تھوڑا بہت احساس ہوا بھی تو دگرگوں حالات اورناموافق ماحول نے اسے پنپنے ہی نہ دیا۔

ہوسونو ہشتومی کا آرٹ

لیکن مجھے یقین ہے کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا. آئیں ہمت کرتے ہیں. اپنے اندر کے ہوسونو کی آواز پر لبیک کہتے ہیں. اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرنے کی کوشش کرتے ہیں. ہاتھ پر ہاتھ دھرے مایوس بیٹھے رہنے سے تو کہیں بہتر ہے نا کہ کچھ نہ کچھ کیا جائے. ہوسکتا ہے آپ کی چھوٹی سی کوشش آپ کی زندگی کی کایا پلٹ دے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں