” داتا گنج بخش “ کے مزار کے احاطے میں اور آس پاس رات کی تاریکی اور دن کے اجالے میں کون سے کھیل کھیلے جاتے ہیں؟ حیران کن انکشافات
انور جاوید ڈوگر :
ہم بنے داتا کے ملنگ ( پہلی قسط )
ہم بنے داتا کے ملنگ ( دوسری قسط )
ہم بنے داتا کے ملنگ ( تیسری قسط )
ہم بنے داتا کے ملنگ ( چوتھی قسط )
ہم بنے داتا کے ملنگ ( پانچویں قسط )
ہم بنے داتا کے ملنگ ( چھٹی قسط )
پیر کاکی تاڑ کے جانے کے بعد میں نے اردگرد کا جائزہ لیا اور چاروں اطراف جا کر دیکھا کہ کہاں کہاں کس کس قبیل کے لوگ بیٹھے ہیں۔ ہر” بزرگ “ کی دکانداری کی اپنی ایک الگ ہی نوعیت تھی۔ مسجد کے نیچے موٹر سائیکلوں کے سٹینڈ کے ساتھ والا کونا نشہ کرنے والے بزرگوں نے اپنے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ ان لوگوں کو چونکہ اوپر مسجد یا داتا دربار کے صحن میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لئے یہ لوگ تہہ خانہ میں بیٹھ کر انڈر گراﺅنڈ سوٹے لگاتے ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ان بزرگوں کے پاس عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے ان کے اندر سے ایک ہی کردار پیر پروین شاہ عرف پاﺅں کے ساتھ ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ پروین عرف پاﺅں یہ نام اس لئے پڑا ہے کہ ان کی محفل میں خواتین کی بڑی تعداد رہتی ہے ، ان کا لہجہ بھی عورتوں جیسا ہے اور وہ بالکل اس طرح ہاتھ چلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ درویش لوگ ہر قسم کی لذتوں سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ سادہ لوح کو اپنے گھر یا کا ایڈریس لکھ کر دے رہے تھے ایک موقع پر سب ہمارے فوٹو گرافر نے ان کی تصویر بنانا چاہی تو انہوں نے موٹے موٹے ڈنڈے اٹھا لئے۔
ڈنڈے کسی خاص لکڑی کے بنے ہوئے تھے اور مختلف قسم کے رنگوں سے ان کالے ڈنڈوں کی تزئین کی گئی تھی۔ ان کے بارے میں لوگ انڈیاں والی سرکار کا لقب استعمال کرتے رہے۔ خاتون اور مرد اپنے انداز کے نرالے دوریش تھے۔ داتا دربار کے علاقے میں ان کے ایجنٹ کافی تعداد میں موجود تھے اور ان کے ساتھ انہی خواتین کا مسلسل رابطہ رہا جن کے بارے میں داتا دربار کے عیاش ملنگ بھلے لوگ کی ٹرم استعمال کیا کرتے تھے۔
اس جوڑے کے پاس آنے والی اکثر لڑکیوں کا تعلق ہیرا منڈی سے تھا یا وہ شوبز کی دنیا سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان خوبرو لڑکیوں کی وجہ سے کئی منچلے بھی انڈے والی سرکار کے اردگرد ڈیرے لگائے بیٹھے رہے۔
سبز منڈی کے ایک پیر میاں یعقوب کے بارے میں ان کی خاتون عقیدت مند کا کہنا تھا کہ انہیں بزرگی ان کے مرشد سے ملی ہے۔ انہوں نے مرشد کی بہت خدمت کی تھی۔ صاحب حیثیت آدمی ہیں اور کسی قسم کا لالچ نہیں کرتے۔
جب یعقوب میاں کی تصویر اتارنے کے لئے فوٹو گرافر گیا تو ان کے ایک عقیدت مند نے اعتراض کیا لیکن اس موقع پر موجود لوگوں نے اور خود میاں محمد یعقوب نے کہا تھا کہ تصویر اتروانے پر اعتراض جعلی پیروں کو ہوگا مجھے کوئی اعتراض نہیں، میں کوئی غلط کام نہیں کرتا۔ دکھی انسانیت کی خدمت کرتا ہوں اور دوریشوں کی تعلیمات کے مطابق دین کی ترویج کے لئے کام کر رہا ہوں۔
ذاتی غرض کے لئے نذر نیاز وصول کرنا لعنتی لوگوں کا کام ہے۔ ہم ایسے پیروں کے خلاف خود کاروائی کرنا چاہتے ہیں مگر کیا کروں کہ ہمارے ہاں جعل سازوں کو تو عزت دی جاتی ہے اور دین کی ترویج کے لئے کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
پیر محمد یعقوب میاں ہر جمعرات کو سینکڑوں مریدوں کے ہمراہ داتا دربار حاضری دیتے ہیں اور اس موقع پر اپنے عقیدت مندوں کے فنڈز سے لنگر تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں منفی آرا بھی پائی جاتی ہیں لیکن ان کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا۔ باتوں کا کیا ہے باتیں تو لوگ ہر شخص کے بارے میں کرتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ میں چوتھے روز کا احوال بیان کروں ایک بنگالی نوجوان کی آپ بیتی لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ عیسیٰ کی ملاقات میرے ساتھ داتا دربار کے احاطہ میں اسی مقام پر ہوئی ہے۔ یہاں میں پیر کے روز میں موجود ہوں۔ محمد عیسیٰ آتے ہی میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا۔ بیٹھتے ہی اس نے کہا
بابا جی! مجھ کو پاک کر دو اور یہاں لوگوں کو بھی پاک کرو۔ خدا کے لئے پاکستان میں رہنے والوں کو پاک کرو، اگر آپ واقعی خدا کے برگزیدہ بندے ہیں تو پھر ان لوگوں کو پاک کیوں نہیں کرتے۔ مجھے پاک کیوں نہیں کرتے۔
میں نے اس نوجوان کو ذہنی مریض سمجھ کر ٹالنے کے انداز میں کہا کہ اپنا ہاتھ دکھاﺅ، میں تمہیں قسمت کا حال بتاتا ہوں۔ عیسیٰ : آپ قسمت کا حال کیا خاک بتائے گا۔ ہماری قسمت تو بہت اچھی ہو گی نا جب ہم پاک ہو جائیں گے۔
میں نے کہا کہ یار تم پاک ہی تو ہو ، ہم سب پاکستانی ہیں ۔ اس لئے پاک لوگ ہی تو ہیں ۔ بنگالی بولا : بابا جی ! کیا خاک پاک ہیں میں تو ادھر پاک لوگوں میں آکر برباد ہو گیا ہوں۔ عیسیٰ زار و قطار رونے لگا۔ میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا، یہ نوجوان پاگل نہیں بھکاری ہے۔ اب میں نے اسے بھیک دینے کے لئے کچھ رقم جیب سے نکالنے کی کوشش کی تو وہ فوراً بولا :
بابا جی ! ہم بھکاری نہیں آپ ہمیں پاک کر دو ۔ میں نے عیسیٰ سے پوچھا کہ وہ یہاں پر کہاں رہتا ہے اور آج دربار میں کیوں آیا ہے؟ عیسیٰ نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ہم ہندوستان کے راستے پاکستان آئے تھے۔ میرے ساتھ ایک بہن اور چھوٹا بھائی تھا۔ ہماری بہن نجمہ کو عورت لوگ لے گیا۔ اب ہم ادھر اکیلا رہ گیا تھا۔ ہم نے سوچا تھا جا کر پاکستان میں ہم لوگ بھی پاک ہو جائے گا مگر ادھر آیا تو دیکھتا ہے کہ یہاں کا لوگ تو ایک دم ناپاک ہے۔ عیسیٰ !کیا تمہیں بھائی اور بہن نہیں ملے اور تم نے ان کی کہیں شکایت بھی نہیں کی۔
بابا جی! ہم کو اپنی بہن اور بھائی نہیں ملا تو ہمیں ایک پاک لوگ جو کہ آپ جیسا تھا نے کہا کہ پولیس سٹیشن جاﺅ ، ہم پولیس سٹیشن چلا گیا وہاں گیا تو پولیس والوں نے بنگالی بتانے پر شناختی کارڈ طلب کر لیا جو کہ ہمارے پاس نہیں تھا۔ ہماری بہن اور بھائی کے غائب ہونے کا سراغ تو پولیس والے لوگوں نے نہیں لگایا البتہ ہمیں گرفتار کر لیا ۔
میں کچھ عرصہ تک جیل میں رہا ۔ وہاں سے ایک وکیل نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آزاد کروایا ہے۔ پولیس والوں نے ہمیں بہت مارا ، ابھی بھی میں ادھر آیا اور میں نے پولیس سٹیشن سے رابطہ کیا تو انہوں نے پھر شناختی کارڈ مانگا۔ ابھی تھانے سے ڈنڈے کھا کر آرہا ہوں۔ بابا جی ! ہمیں شناختی کارڈ بنوا دو اور پاک کر دو۔
پاک کر دو پاک کر دو کی تکرار سے میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ اس بنگالی نوجوان کے خاندان نے پاکستان کا مطلب پاک لوگوں کی بستی لیا ہو گا۔ یہاں آنے کے بعد اس پر جو گزری اس کے باعث وہ نفسیاتی مریض بن کے رہ گیا ہے اور اب پاک کر دو پاک کر دو پر اصرار کر رہا ہے۔ اس کی ذہنی سوچ یہاں پر آکر اٹک گئی ہے۔
بلاشبہ عیسیٰ کو بہن اور بھائی کی جدائی نے نیم پاگل کر رکھا تھا عین اسی لمحے اذان کی آواز آئی تو عیسیٰ نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد میں چلا گیا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد وہ واپس میرے ساتھ واپس آرہا تھا تو ہزراوں ایسے لوگوں کو دیکھ کر جو نماز میں شریک نہیں ہوئے تھے، عیسیٰ نے مجھے مخاطب ہو کر کہا کہ بابا جی! یہ لوگ پاک نہیں ہو سکتے۔ یہ تو نماز تک نہیں پڑھتے یہ پاک کیسے ہو سکتے ہیں۔ بہرحال اگر ہو سکے تو آپ ہمیں ضرور پاک کر دیں۔
اچانک عیسیٰ غائب ہوگیا اور میرے ذہن اور ضمیر پر ایک ایسا بوجھ چھوڑ گیا جسے میں شاید قیامت تک اتار نہیں پاﺅں گا۔ جس روز اس بنگالی نوجوان کے ساتھ ملاقات ہوئی، اس روز ایک افغان عورت میرے پاس میرے ایک ٹاﺅٹ کی وساطت سے پہنچی۔ اس خاتون کی سادگی اور لاعلمی نے ایک بہت اچھی کہانی جنم دی ہے۔ لیجئے آپ بھی پڑھیے:
ہم لوگ افغانستان سے ادھر آیا تھا، ادھر آکر ہم لوگ کو بہت تکلیف برداشت کرنا پڑا۔ خاوند نے گھر سے نکال دیا اور پشاور میں موجود نوجوان بیٹا گالیاں دینے لگا۔ دو بچے اسی خاتون کے ساتھ تھے۔ اس خاتون نے اس کے نام شہنشاہ گل اور اورنگزیب خان بتائے۔ دونوں بادشاہی نام رکھنے والے بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔
ایک تو ماں کا دودھ پیتا تھا ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے کے بعد بولی ہمارا نام شہزادی ہے۔ جب بیٹا ناراض ہو گیا تو اس نے ہم کو رات کے وقت مارا تو ہم گھر سے باہر نکل آیا۔ ابھی باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ارسلان خان آگیا۔ ارسلان خان پشتو جانتا تھا ۔ خاتون شہزادی کو اردو بولنے میں مشکل پیش آرہی تھی اور میں اس کی باتوں کو سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔
میں نے ارسلان خان سے کہا کہ آیار تم اس کے ساتھ پشتو میں باتیں کرو اور پھر اس کا مطلب مجھے سمجھا دینا۔ ارسلان خان نے اس خاتون کے ساتھ تبادلہ خیال کیا تو وہ پھٹ پڑی قریب تھا کہ وہ کوئی چیز اٹھا کر ارسلان خان کو دے مارتی کہ ارسلان خان وہاں سے چلا گیا۔
بعد میں میں نے خاتون سے پوچھا کہ یہ تو آپ کا بھائی تھا ، آپ کی زبان جانتا تھا، آپ نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا۔ خاتون بولی:
یہ بھائی نہیں شیطان تھا، مجھے گناہ کی دعوت دے رہا تھا۔ اگر میں اپنی عزت ہی برباد کرنا ہوتی تو داتا دربار کیوں آتی۔ میں یہاں اس لئے آئی ہوں کہ یہاں میری عزت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔ داتا صاحب مجھے وہاں گھر جانے کا کرایہ بھی دے دیں گے۔
میں نے شہزادی سے کہا کہ داتا دربار پر موجود کوئی شخص تو آپ کو کرایہ دے سکتا ہے لیکن داتا صاحب کرایہ کیسے دے سکتے ہیں۔ شہزادی بولی کرایہ کیوں نہیں دے سکتے ؟ آپ مجھے بتائیں داتا صاحب کہاں بیٹھے ہیں؟ ان کے بیوی بچے کدھر ہیں۔ میں ان سے جا کر ملوں گی تو وہ مجھے کرایہ دے دیں گے۔ مجھے ایک بابا نے بتایا تھا کہ داتا صاحب آپ کو کرایہ بھی دے دیں گے اور وہاں پر تم رات بھی گزار سکتی ہو۔
باتیں کرتے کرتے شہزادی اچانک خاموش ہو گئی اور سمٹ کر میری اوٹ میںبیٹھ گئی جب کالی وردی میں ملبوس دو سکیورٹی والے اور ایک پولیس ملازم ہمارے قریب سے گزر کر دور چلے گئے تو خاتون نے کہا کہ اچھا بابا جی ! اب میں داتا صاحب کو نہیں ملتی۔ یہاں پر میری عزت محفوظ نہیں۔ رات راولپنڈی میں ان کالی وردی والوں نے مجھے پناہ دی ، وہ میں آپ کو بتا نہیں سکتی۔
میں بیٹے کی گالیوں سے تنگ آکر گھر سے تو نکل کھڑی ہوئی ہوں لیکن یہ کالی وردی والوں سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ تو ڈاکو لوگ ہیں میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ اس خاتون کو زاد راہ فراہم کرنے کے لئے کوئی انتظام کر دوں۔ میں اٹھنے لگا تو اس نے مجھے روک لیا اور کہنے لگی بابا جی خدا کے واسطے مجھے داتا دربار سے باہر نکال آﺅ۔ یہ لوگ کالی وردی والے میری عزت لوٹ لیں گے۔
میں نے شہزادی کو ” نہیں “ کہتے ہوئے بہت تسلی دی لیکن اسے میری باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔اور وہ اٹھ کر چلی گئی۔ میں شہزادی کو زبردستی روک نہیں سکتا تھا لیکن آج جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو یہ احساس میرا تعاقب کر رہا ہے کہ
کاش! میں شہزادی کے کام آیا ہوتا اور وہ معاشرے کے ناسوروں سے بچ جاتی اور اس کے بچ جانے کا مجھے یقین ہو جاتا۔ میں آج کے لمحات تک اپنے بے بسی یا بے حسی پر ماتم کناں ہوں اور شاید اس وقت تک ماتم کرتا رہوں گا جب تک شہزادی جیسی عورتیں معاشرے میں محفوظ نظر نہیں آتیں۔
لیجئے قارئین! آج مجھے داتا دربار پر بیٹھے چوتھا روز ہے۔ آج جمعرات ہے اور جمعرات کے روز داتا دربار کے اندر اور باہر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ کئی شہروں سے ملنگ، درویش فقیر اور زائرین یہاں آتے ہیں۔ صبح سویرے ہی لوگوں کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔ خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ برآمدوں کے علاوہ پلاٹ بھی بھرے پڑے ہیں۔ میں اپنے اڈے پر موجود ہوں۔ میرے اردگرد کئی پیر حضرات اپنے مریدوں سمیت موجود ہیں۔
داتا دربار پر چوتھے، پانچویں، چھٹے اور ساتویں روز میں ایسے واقعات ہوئے جنہیں ضبط تحریر میں لانے بیٹھوں تو ان کی تفصیلات سے صفحات کے صفحات بھر جائیں۔ مختصرا یہ کہوں گا کہ داتا دربار میں ذکر و فکر اور قرات و تلاوت اور عبادت و ریاضت کی انتہا ہے تو جرائم پیشہ عناصر بھی اندر آئے ہوتے ہیں۔ میں نے سات روز کے اندر یہ محسوس کیا کہ داتا دربار کے گردونواح میں اور داتا دربار کے احاطہ میں درج ذیل کام کرنے والے پولیس اور انتظامیہ کی سرپرستی میں دندناتے پھر رہے ہیں:
عورتوں کی تجارت، بردہ فروشی، عورتوں کے اڈے، بچوں کے ساتھ جنسی بے راہ روی ، اور عورتوں کے ساتھ عیاشی، جیب تراشی، جوئے کے اڈے، منشیات فروشوں کے گروہ، اسلحہ کے سوداگروں کے گروہ، جعلساز پیروں ، فقیروں، ملنگوں کے گروہ، زائرین کے دئیے ہوئے فنڈز کو خرد برد کرنے والا گروہ۔ یہ سارے گروہ کالے دھندے پولیس کی سرپرستی میں ہوتے ہیں۔ جیب تراشوں کا نیٹ ورک بہت منظم ہے۔ کسی ایک بھی جیب تراش کے خلاف مقدمہ تک درج نہیں ہو پاتا۔
اس سلسلہ میں جب پولیس اور انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا موقف بھی دلچسپی کا باعث تھا۔ ایڈمنسٹریٹر اوقاف حاجی اختر نے راقم الحروف کو بتایا کہ فنڈز میں خردبرد ہوتی تھی لیکن اب ہم ہوشیار ہوگئے ہیں اس لئے یہ کام نہیں ہوتا۔ داتا دربار کے باہر جو منی سینما گھر چل رہے ہیں وہ میں بند نہیں کروا سکتا۔
ایک بار کوشش کی تھی تو یہ لوگ ہائیکورٹ میں چلے گئے تھے وہاں ہمیں معذرت کرنا پڑی تھی۔ فنڈز کا خرد برد ماضی میں ہوتا تھا۔ میرے یہاں آنے کے بعد ہر ماہ ریونیو میں دس لاکھ کا نفع ہوتا ہے۔ پچھلے سال جولائی میں 45 لاکھ تھے تو اس سال جولائی میں 55 لاکھ غلوں سے نکلے ہیں۔
مجھے ان کی اس بات میں کوئی صداقت نظر نہیں آئی کہ میں کہہ چکا تھا کہ غلہ سے رقم نکالنے اور پھر اسے جمع کرنے کا عمل ہرگز ہرگز شفاف نہیں تھا۔ داتا دربار میں زائرین کو بلوا کر نوٹ گنوائے جاتے ہیں۔ پھر یہ نوٹ ایک ایک ہزار کی شکل میں اکٹھے کئے جاتے ہیں اور بعض بزرگ اس کی پیکنگ کرتے ہیں۔ یہ بزرگ نیچے قائم بینک کے اہلکاروں تک سے مک مکا کر چکے ہوتے ہیں اور اس فنڈ کی گنتی چوروں کے مال کے سے انداز میں کی جاتی ہے۔
بینک میں ہزاروں روپے کے نوٹوں کی جو گڈی بھیجی جاتی ہے وہ 1500 کی بنتی ہے۔ بینک میں جاکر اصل رقم تو داتا دربار کے فنڈ میں جمع ہو جاتی ہے جبکہ اوپری رقم داتا دربار کے کرتا دھرتا محکمہ اوقات کے افسران کے اکاﺅنٹس میں منتقل ہو جاتی ہے۔ لنگر اور دیگر کئی قسم کی خرد برد اس کے علاوہ ہے۔
سات دن کے دوران میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر داتا دربار کے مالی معاملات کسی دیانتدار کمیٹی کے سپرد کر دئیے جائیں اور افسر شاہی کے اللے تللے پورے نہ کیے جائیں تو اس آمدنی سے بے گھروں کے لئے روزانہ ایک نیا شہر آباد کیا جا سکتا ہے۔
میں یہ تجویز بھی دوں گا کہ اگر وزیراعظم زائرین کے عطیات خرد برد ہونے سے بچانے کے لئے ذاتی دلچسپی لیں تو سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے عقیدت مندوں کے عطیات سے چند ماہ یا سالوں کے اندر پاکستان کے تمام بے گھروں کو گھر فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کیفیت صرف داتا دربار کے فنڈز کی ہے اگر تمام درباروں کے عطیات خرد برد ہونے سے بچائے جائیں تو حکومت غیر ملکی قرضے تک اتار سکتی ہے۔ اور نیکی کے کئی کام کر سکتی ہے۔
میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر عطیات کو نیکی کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے تو بزرگان دین کے عقیدت مند اور زیادہ عطیات دیں گے۔ آپ میں سے بعض لوگ اس لئے بھی عطیات دینے سے گریز کرتے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے، ان کے عطیات کے مصرف تک کا انہیں علم نہیں ہوتا۔ فحاشی ناجائز فروشی، جیب تراشی اور دیگر جرائم پر قابو پانا چونکہ پولیس کا کام ہے اس لئے ہمارے راشی افسران اس طرف ہرگز توجہ نہیں دیں گے۔
ہمارا موجودہ پولیس کلچر اس قدر غلاظت سے بھر پور ہے کہ اس سے خیر کی توقع نہیں۔ بس علاقے میں جرائم کی پرورش کے لئے پولیس کے اعلیٰ حکام تک کو لاکھوں روپے ماہانہ ملتے ہوں وہاں پولیس کے افسران اصلاح احوال کے لئے کوئی ایسا قدم آخر کیوں اٹھائیں گے؟
وزیراعلیٰ پنجاب ایک عرصہ سے اس نظام کو بدلنے اور تھانے کلچر کو تبدیل کرنے کے لئے باتیں کر رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ انہیں کامیابی ہو لیکن کم از کم اتنا کام تو کریں کہ بزرگان دین کے مزاروں کے اردگرد علاقوں کو اس سے پاک کر دیں۔ پولیس کے اندر ایسے نیک لوگ موجود ہیں جو بزرگان دین کے مقبروں پر تعینات کر دئیے جائیں تووہ ایسے جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینک سکتے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں تلاش کر کے یہاں پر لگائے گا کون؟
آخر میں، میں پھر یہ کہتا ہوں کہ حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پر ہونے والی مجرمانہ حرکتوں وار بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے کا مقصد بزرگان دین کی توہین و تکذیب یا رسوائی ہرگز نہیں۔ ہمارا مقصد صرف اصلاح احوال اور برائیوں کی نشاندہی تھا۔ اگر کوئی ادارہ ہو یا فرد یا تنظیم اس نشاندہی کے باوجود اصلاح و احوال کے لئے کچھ نہیں کرتی تو یہ اس کا اپنا مسئلہ ہے۔
میرا ضمیر مطمئن ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے داتا دربار پر سات روز تک جو مشقت اٹھائی اس کے مقاصد پورے ہو گئے ہیں۔ کاش ! ہم داتا دربار کے احاطے میں اور اس کے اردگرد ہونے والی مجرمانہ حرکتوں کانوٹس لے کر اس شعر کے تقاضوں کو پورا کر سکیں جو تمام عقیدت مندوں کا ہر لمحے ، ہر گھڑی اور ہر روز استقبال کرتا ہے۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما