دعا عظیمی :
مجھے ایسے معلوم ہوتا اس کی روح کے ماتھے پہ عاشقی کا تلک تھا۔ وہ کبھی وادی سینا کا طواف کرتی تو کبھی انسانی محبت کی پیروی میں آگرہ کے تاج محل کی حسین دیواروں پہ پچی کاری سے لکھی گئی قراٰن پاک کی آیات مقدسہ کو یک ٹک تکے جاتی ،
اسے پتہ نہ چلتا کہ وہ سامنے لگے سنگ سرخ کو چومے یا مرمریں دیواروں کی سفید رنگت پہ نثار ہو..حوض کے پانیوں سے لطف اندوز ہو یا یمناکی پوتر لہروں کی روانی کو محسوس کرے یا فواروں سے نکلتے موتیوں سے دامن کو تر کر لے.
زمانے بیت گئے تھے مگر سچی محبتوں کی امین عمارت فخر سے سر اٹھائے کھڑی تھی محبت اور محنت کے باعث ہی تو عجوبے اور شاہکار امر ہوتے ہیں۔
بہت مدت کے بعد مجھے دیکھنے کا لمحہ نصیب ہوا تھا اور میں مغلیہ طرز تعمیر کے محبت سے منسوب شاہکار کے مینار دیکھ کے مبہوت تھی.
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک انگریز سیاح اور فطرت کے ماہر ایڈورڈ لیئر نے فرمایا تھا :
” دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک وہ جنہوں نے تاج محل کو دیکھا اور دوسرے وہ جو اس سے محروم رہے.“
گویا ایک وہ جنہوں نے محبت کا دیدار کیا اور دوسرے وہ جو اس سے محروم رہے.
جہاں تک اس کا تعلق تھا وہ میری بچپن کی سہیلی ” منو“ ہر گرمیوں کی چھٹیوں میں آگرہ کے تاج محل کے دیدار کو چل دیتی، جانے اسے اس کے دیکھنے سے کیا راحت ملتی . یوں لگتا جیسے کہ اس کا وجدان محبت سے منسوب اس عمارت سے تسکین کے نئے در وا کرتا. جب وہ واپس لوٹ کے آتی تو مجھے ایسے ہی سرشاری سے بھری دکھائی دیتی .
محبت کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں یا تو آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں اور اگر کچھ من کو بھا حائے تو ہزار جان سے فریفتہ ہو جاتے ہیں اور بےاختیار محبت کے دریا میں اتر جاتے ہیں.
اس کی کلائی میں محبت کا نو رتن جگماتا تھا. نو حسین پتھروں سے بنا کنگن موتی ، لعل ، یاقوت ، ہیرا ، نیلم پکھراج ، زمرد ، موہ نجف سے جڑا
اس نے بتایا تھا
” یہ میرے محبوب کی دی ہوئی نشانی ہے.“
جو علم و فضل میں یکتا تھا.
وہ اسے یاد کرتے ہوئے کہتی کہ ” اسے جدا ہوئے کتنے سال گزر چکے ہیں مگر وہ آج بھی میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے .“
” میں اس کی عادی ہوں. وہ میری وحشتوں کا ساتھی ہے. میرے خوابوں کا مرکز ومحور “
وہ دور کہیں کھو جاتی اور اسے یاد کرتے ہوئے جگمگاہٹ اس کی آنکھوں کو پہلے سے زیادہ روشن کر دیتی.
وہ مجھے بتاتی تھی
” میں نے اس کی ذات سے نہیں اوصاف سے محبت کی تھی اور اوصاف سے کی گئی محبت کبھی نہیں مرتی. “
کہنے لگی اس کی یاد سے میرے دل کی وادی سینا میں ” من “ اترتا ہے
میں نے کہا:” من؟؟؟
یا حبیبی! یہ ” من “ کیا ہے؟ “
کہنے لگی” ہاں ٹھنڈی شیریں شبنمی گوند جسے پانی میں ملا لوں تو راحت بن کے میرے وجود کے لیے تسکین کا سامان پیدا کرے اور اگر اسے سیدھا سبھاؤ دہن میں رکھوں تو لذت کے بےشمار ذائقوں سے زبان آشنا ہوتی رہے.
” کیا شہد کی طرح؟ “ میں نے پوچھا
بولی ” شہد کی مٹھاس تو اس کا سترہواں حصہ ہے۔“
اففف کیسی مثالیں دیتی تھی.
میں سوچتی اور سوچتی رہ جاتی.
یہ محبت کیا ہے، یہ خدا کا نور ہے ، شہد اور دودھ کی نہر ہے ، یہ خود حور ہے ، اس کا خیال شراب طہور ہے.. وہ محبت کے موضوع پہ بات کرتے نہ تھکتی۔
میرے من میں حسرت ابھرتی
کاش ! میں نے بھی کسی سے محبت کی ہوتی ، کوئی ہوتا جو میرے خوابوں کا مرکز و محور ہوتا.
میٹھی مسکان اس کے ہونٹوں کے گوشوں پہ کھیلنے لگتی۔
اے نرم و نازک دل کی مالک میری سہیلی! محبت کے لیے تو بڑا ظرف اور حوصلہ چاہیے۔
کہنے لگی: ہاں یہ سچ ہے یہ کیفیات کا کھیل ہے.
کسی لمحے تو شدت ایسے ظہور میں آتی ہے کہ جیسے جوار بھاٹا ، جیسے طغیانی ، جیسے آسمان کو چھوتا پانی اور کبھی یوں لگتا ہے کلیجہ پھٹ جائے گا آتش فشاں کی مانند سرخ ، ایسے ہی کسی لمحے حضرت زکریا یاد آتے ہیں جنہیں تنے میں چھپ جانے پر پکڑ ہوئی اور تنے کو آرے سے دوحصوں میں کاٹ دیا گیا تھا۔ صبر ایوب چاہیے اس ظرف کوحاصل کرنے کے لیے۔
اففف میں نے تو توبہ کی
نہ بھئی یہ تو مفت کی خواری ہے
میری جان مجھے بہت پیاری ہے
مگر پھر وہ شانت ہو کے مسکراتی تو میرے من میں لوبھ اتر آتا
جیسے پھر سے من و سلویٰ چکھنے لگی ہو، مجھے بھی چاہیے
” سفید شبنمی گوند اور لذیذ بٹیر کاخوان “
وہ کھو گئی ، یوں لگا ، اس کی روح پھر سے آگرہ کے تاج محل سے وادی سینا تک طواف کرنے لگی۔
ایک روز میں نے اس سے پوچھا:” یہ اوصاف کی محبت کیا ہوتی ہے؟ “
بولی:” اوصاف کی محبت جذب کی صورت ہے…یہ زمانوں سے قلوب پر سورج کی مانند اترتی آئی ہے …. یہ لافانی ہے. جب ایک کی روح کے اوصاف دوسرے کی روح کے اوصاف کی چمک سے منور ہو جائیں یا خوشبو سے معطر ہوجائیں یا ایک ہی صعودی راستے پر پرواز بھرنے لگیں تو من و سلویٰ اترتا ہے..“
” کیاکسی کی صحبت کا اثر….؟
یا فقط فضل ربی؟؟”
عاشقین کی منزل مل جانا نہیں
وہ تو کبھی جدا ہی نہیں ہوتے
اس پر اس نے رومی کا یہ شعر پڑھا مگر اس نے راز نہیں کھولا.
عرصہ ہوا پھر ملاقات نہیں ہوئی. آج تاج محل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ساتویں عجوبے کے ساتھ اس پجارن کی یاد آگئی. کبھی کبھی سوچتی ہوں عجب عورت تھی محبت کے نام پہ کیا پاکھنڈ مچا رکھا تھا.
جانے محبت کس سے کرتی تھی.
ایک تبصرہ برائے “اوصاف سے محبت”
اسکے ہی بازؤں میں اور اسی کو سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی
-پروین شاکر
زندگی کے کینوس پہ محبت کے منفرد رنگوں سے بنی مسحور کر دینے والی تصویر ، ۔دل میں اتر جانے والی شاندار تحریر۔